جلے دِل کے پھپھولے


ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے برسوں پہلے پڑھی یہ تحریر تو ذہن کے پنّوں پہ آج بھی تر و تازہ ہے۔ محو بھی کیسے ہو کہ کُچھ لوگوں نے ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے یاد دہانی کا۔ ہم تو تھک ہار کر چُپ ہو بھی جائیں مگر یہ مہربان اس قدر ڈھیٹ ہڈی واقع ہوئے ہیں کہ نہ نہ کرتے بھی کچھ نہ کُچھ طوعاً و کرہاً بولنا ہی پڑتا ہے۔ ہم ایسے بھی سنت سادھو نہیں کہ کوئی بے پر کی اُڑا رہا ہو تو آنکھ موند کر واہ واہ کریں اور کہیں کہ قبلہ آپ درست فرماتے ہیں۔ اکثر اوقات خاموشی کے دامن میں پناہ لی بھی تو فساد فی الارض سے بچنے کی خاطر مگر رگوں میں دوڑتا جلالی خون کہیں نا کہیں پنگا لے ہی بیٹھتا ہے گو ایسا ارادتاً نہیں ہوتا۔
فیس بُک کے اکھاڑوں سے تو اللہ، ایشور اور گوڈ سبھی بچائیں۔ یہاں تو ایسا ایسا بقراط بھرا ہے کہ اصلی بقراط بھی آج زندہ ہو کر آ جائے تو قدموں میں لوٹ پوٹ کر یہی کہے گا کہ مائی باپ آپ تو مہان ہیں، بدھی مان ہیں، گیانی ہیں کُچھ گیان ادھر بھی وردھان ( بخشنا) کر دیں۔ میں آپ کا بے دام غلام گو غلامی آج کی دُنیا میں متروک ہو چُکی ہے تو چلیں مجھے بھی اپنا بھگت بنا لیں۔ یہ نکتہ وری آپ نے سیکھی کہاں سے؟ ہم ٹھہرے سادھارن آدمی ہڑبے دڑبے ہر جگہ آ بیل مجھے مار کہہ کر سینگ پھنسانے کی بھی کوئی کلپنا نہیں ہے۔ بس چنیدہ لوگوں سے ہی واسطہ رہتا ہے۔ ان کی کوئی پوسٹ اچھی لگتی ہے تو کچھ لکھ دیا ورنہ آگے بڑھ گئے۔
چار دن پہلے ایک پوسٹ پہ روحانی تجربے کے بارے ایک کومنٹ لکھا تھا وہی غضب ہو گیا۔ پوسٹ مزاروں کے بارے تھی۔ ہمیں مزاروں سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے اور وہاں جانے والوں سے بھی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمیں جانے والوں میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ہر چہرہ ایک کہانی لگتا ہے۔ کوئی دکھیارا جب زندوں سے دِل کی بات نہیں کہہ پاتا تو مُردوں سے رجوع کرتا ہے۔ قبر میں سویا شخص مسائل حل نہیں کرتا پر کہنے والے کی تشفی ہو رہی ہے تو ہونے دو۔ جب انسان اتنی دُکھی آتماؤں کو دیکھتا ہے تو ایک عجیب سے قلبی تجربے سے گزرتا ہے۔ ایسا ہونا ضروری بھی نہیں کہ ہر کسی کے سوچنے کا انداز مختلف ہے۔ زاویہ نظر الگ ہو تو مشاہدہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ستہ (سچ) کی تعریف بھی ہر کوئی اپنے دین دھرم یا نظریات کے حساب سے کرتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اس دُنیا میں جتنے لوگ ہیں اتنے ہی سچ ہیں اور اتنے ہی جھوٹ بھی۔ کسی ایک کا سچ کسی دوسرے کا سچ نہیں ہوتا تو جھگڑا کاہے کا؟
بس ہونا کیا تھا بس آگئے ایک مہا پُرش مان نہ مان میں تیرا مہمان کی مورت بنے اندر کی پیاس اور باہر کی پیاس کی رامائن سنبھالے۔ صاحب پوسٹ جانی مانی شخصیت تھے انہیں تو کُچھ کہا نہیں اور بقراطی جھاڑنے کے لیئے نگاہِ انتخاب ٹھہری ہم جیسی کمزور مہیلا پر۔ جیسے انہوں نے ہمیں اپنی چشم نابینا سے (اُسے بینا نہ پڑھا جائے) قبر کو یا بتوں کو سجدہ کرتے دیکھ لیا ہو۔ دِل میں تو آئی کہ کہیں کہ ارے میاں پہلے تم اپنے اندر کے بت تو توڑو مگر بھڑوں کے چھتے میں کیوں ہاتھ ڈالتے؟ ویسے ایک بات کی ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ سارے یامی اور انتریامی مہلاؤں پہ ہی کیوں مہربان رہتے ہیں؟ ان ہی گردن کیوں ناپتے ہیں؟ شاید اس لیئے کہ ان کی گردن پتلی ہوتی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ یہ گردن اتنی پتلی رہی نہیں ہے۔ زیادہ نہ سہی پر تھوڑا بہت سوچنے سمجھنے لگی ہیں۔ یہ دُنیا جب سے ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے تب سے یہ گلے سڑے بھاشن اپنا اثر کھو چُکے ہیں۔ یہ پھیکے پکوان جو چاہے وہ خریدے کم از کم ہم تو خریدار نہیں ہیں۔
ہاں تو ذکر ہو رہا تھا اُن مہا پُرش کا جو اپنی ٹوٹی پھوٹی رومن میں ہمیں سچ اور جھوٹ کا پاٹھ پڑھانے لگے بودی دلیلوں کے سہارے۔ ایسے ہی نا بالغوں نے رہے سہے ایمان کا بھی سروناش ( ستیاناس) کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم بھی کہاں چوکنے والے کہہ دیا کہ ویدوں کے یہ نسخے ہم نے بہت دیکھ رکھے ہیں۔ ستہ کی ضرورت جتنی ہمیں ہے اتنی ہی آپ کو بھی ہے۔ ستہ یہی ہے کہ روحانی تجربہ کسی دھرم کی میراث نہیں ہے۔ اس میں آستک اور ناستک کا فرق نہیں۔ احساسات کا چشمہ اندر سے پھوٹتا ہے۔ انسان پہ یہ کیفیت کبھی بھی اور کہیں پر بھی طاری ہو سکتی ہے۔ یہ مسجد و مندر یا کلیسا میں تفریق نہیں کرتی مگر تتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ مجھے ہے حُکمِ اذاں کے ماننے والے وقت بے وقت اذان دینے سے کب کسی کے روکے رُکے ہیں؟
بھئی اگر آپ کا دھرم بھرشٹ ہوتا ہے تو مت پڑھو ہمارا لکھا آگے بڑھ جاؤ، بلا وجہ کی مڈبھیڑ کا کیا فائدہ؟ ہم آستک ہیں یا ناستک یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہمارا ہے۔ پر آگے تو وہی بڑھتا ہے جس کی ننھی سی کھوپڑیا میں کُچھ سماتا ہے۔ لگے اڑنے اور وہی میں نہ مانوں کی پُرانی رٹ۔ وہاں سے تو ہم کٹ لیئے مگر کئی روز تک موقع کی تلاش میں تاک لگائے بیٹھے رہے کہ جلے دل کے پھپھولے کہاں پھوڑیں بس آج مل ہی گیا حاشر ابن ارشاد کی پوسٹ پر لگی ایک ویڈیو دیکھ کر۔
آپ بھی پڑھیئے لیکن دھارمک آتماؤں سے گزارش ہے کہ اس سے پرہیز برتیں۔ اس تحریر میں ہندی الفاظ کا استعمال بوجوہ ہے مہیلا ہونے کے ناطے کچھ احتیاط تو برتنی پڑتی ہے وگرنہ ہمارے حساب کتاب میں دھرم کا معاملہ ہر جگہ ایک سا ہے۔ اور کسی بھی دین دھرم کے برہمنوں سے الجھنے کا نہ ہمارا مدعا ہے اور نہ شوق۔ نصیحت و فضیحت کی بھی یہاں چنداں گُنجائش نہیں کہ سماج کے دامن میں دین دھرم نے اتنے چھید کر رکھے ہیں جو اب قابلِ رفو بھی نہیں رہے۔ دھرم کا دھندہ کرنے والوں کی بدولت جو جو کُچھ بھگتا ہے یا جو بھگتان مزید بھگتنا پڑے گا اس کا سوچتے ہی ہول اُٹھنے لگتے ہیں۔ ارے صاحب ان بند بدھی والوں سے کیا اُلجھنا! ذرا کُچھ کہہ دو یا لکھ دو تو دھارمک آتمائیں آتما سے پرماتما کا روپ دھار فٹ آن موجود ہوتی ہیں اپنی دھارمک پوٹلی سمیت اور وہ وہ اپدیش دیتی ہیں کہ شاستر لکھنے والا بھی شرما جائے۔ ہم جیسی کمزور آتمائیں سر پیٹتی رہ جاتی ہیں کہ ہم نے کیا کہا انہوں نے کیا سمجھا۔ کُچھ بھی کہنا سُننا بیکار ہوتا ہے۔
گیان و وگیان ( علم و عقل) سے انہیں کُچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کے وچار (سوچ) میں گیان صرف دھرم میں ہے اور وگیان بس وہی جسے دھرم کا دوشالہ اُڑھایا جا سکے۔ ان کی ایک ہی آواشتہ ( خواہش، ضرورت، فکر) ہوتی ہے کہ ہمیں ایکا ایکی ناستک سے آستک (لا دین سے دین دار) بنا ڈالیں۔ لاکھ سمجھاؤ کہ اتنا کشٹ (تکلیف) کاہے اُٹھاتے ہیں پر یہ کشٹ اُٹھائے بغیر ان کی آتما کو شانتی نہیں ملتی۔
اتہاس (تاریخ) کے پنے گواہ ہیں کیاری میں جو بیج بویا جاتا ہے پودا بھی اسی کا نکلتا ہے۔ یہ کام تو ورشوں کی کہانی ہے۔ اپنی تو بس ہے ان انتریامیوں (شعبدہ باز) کے سامنے ہم تو یہی کہہ کر دوڑ لیتے ہیں کہ تمہارے لیئے تمہاری راہ ہمارے لیئے ہماری اور من ہی من یہی سوچتے ہیں کہ اب اس عمر میں کیا خاک دھارمک” ہوں گے؟”
چلتے چلتے ایک پُرانا شعر یاد آ رہا ہے سوچا اُسے بھی گوش گزار کر دیں
ان عقل کے اندھوں کو اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلٰی نظر آتا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments