فواد چودھری کا تجربہ غالباً تلخ ہے


اردو ادب میں انشائیہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ پھر ڈاکٹر وزیر آغا اور ان کے دوست احباب لکھاریوں نے انشائیہ کو ایک تحریک کی شکل میں آگے بڑھایا۔ اردو ادب میں نہ صرف انشائیہ کی تعریف کو اجاگر کیا بلکہ انشائیہ کی تاریخ کو مستند اور دلیرانہ طریقے سے پیش کیا یعنی انشائیہ کی تاریخی، تخلیقی اور تنقیدی زاویوں پر حوالوں کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کو ایک منجھے ہوئے ادیب کی حیثیت سے بیان کیا۔

ڈاکٹر وزیر آغا کی طرح انشائیہ تو میں لکھ نہیں سکتا البتہ ان سے متاثر ہونے کے زعم میں ایک انشائیہ لکھنے کو دل چاہ رہا ہے اگر اس میں میری کوئی ادبی اور تخلیقی کمزوری جو یقیناً آ رہی ہوگی کے لئے پیشگی معذرت خواں ہوں۔

میرے انشائیے کا عنوان ہے۔
تجربہ۔

کہتے ہیں کہ تجربہ انسان کو کامل بناتا ہے لیکن اگر یہ تجربہ صرف مشاہدے پر مبنی ہو تو پھر بندے کو عامل بناتا ہے۔ اور عامل جسمانی سے زیادہ روحانی علاج معالجہ کراتا ہے۔ اپنے مؤکلوں کے ذریعے مریض کی چھپی ہوئی بیماری کا سراغ لگاتا ہے۔ مریض کا ہاتھ پکڑتا ہے۔ دم درود کراتا ہے، گنڈے تعویز لکھواتا ہے۔ لیکن تجربے کا ”کامل“ ہاتھ یا نبض پکڑ کر جسمانی اور روحانی بیماری کا پورا پورا حال بتاتا ہے اور وہ پھر جو تعویز دیتا ہے جو زعفران سے اکثر لکھا ہوا ہوتا ہے یا تو پڑیاں بنا کر پینا پڑتا ہے یا پھر بالٹی میں ٹال کر اس پانی سے نہانا پڑتا ہے اور اگلی بار جب وہ مریض آتا ہے تو سب سے پہلے ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اب ذرا ہلکا محسوس کر رہے ہو کہ نہیں جس کا جواب مریض کی طرف سے ہاں ہی میں ہوتا ہے۔

تجربے کا کوئی متبادل نہیں اور تجربے پر مبنی جو شوق پروفیشن بن جائے تو پھر شوق کا بھی کوئی مول نہیں لیکن پروفیشنل تجربہ جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اتنا ہی پختہ بھی ہوتا جاتا ہے اور پھر اپنے کاروبار کو بھی چمکاتا رہتا ہے۔ کیونکہ پھر ان کو تھوڑے پر اکتفا نہیں ہوتا اور کاروبار کو اتنا پھیلاتا ہے کہ ہر جگہ اور ہر کسی کے ساتھ ان کا برانڈ دستیاب ہوتا ہے اور بذات خود بھی یہ جگہیں بدلتا رہتا ہے اور اپنی بے اطمینانی کے باعث اچھے سے اچھے کی تلاش میں رہتا ہے۔

تجربے کا حامل اور کامل شخص بولتا ضرور ہے لیکن تولتا نہیں کیونکہ ان کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ عقل مند اس دنیا میں کوئی نہیں۔

ویسے یہ بھی تجربہ ہے کہ محفل میں دو طرح کے لوگ بولتے ہیں ایک وہ جو اپنے بے عقلی کی وجہ سے بولتے ہیں اور ان کو یہ احساس یا علم نہیں ہوتا کہ وہ بول کیا رہے ہیں اور دوسرے وہ لوگ بولتے ہیں جن کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ جو وہ بول رہے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ کیا بول رہے ہیں اور یہ سننے والوں کے لئے بھی بالکل نئی بات ہوتی ہے۔

ہمیں مشاہدہ اپنے حواسوں سے ہوتا ہے اور پھر یہ حواس ہمیں ادراک اور ادراک ہمیں تجربہ عطا کرتا ہے۔ پھر یہ انسان کے محسوسات پر ہے کہ انھوں نے کسی چیز کو کتنا محسوس کیا ہے اگر وہ اس چیز کی بار بار ذکر کرتا رہتا ہے یا کھلے عام اس چیز کو سامنے لاتا ہے تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص اس چیز یا اس چیز کے تجربے سے زیادہ متاثر ہے یا اس تجربے کی یاد ان کو اس بات پر مجبور کرتی رہتی ہے کہ اس کو زیر بحث لایا جائے۔

اس سے اس طرح کے کاروباری شخص کو اگر ایک طرف خاصے اچھے گاہک مل جاتے ہیں تو دوسری جانب ان کا مال بھی دھڑا دھڑ بکتا رہتا ہے۔ مارکٹنگ بھی ہوتی ہے اور ان کی قدر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔

تجربہ انسان کو بولڈ بناتا ہے اور وہ پھر اس تجربے کو اجاگر کرنے کو کھل کر بیان کرتا ہے۔ اور وہ پھر موضوع کوئی بھی ہو وہ اس تجربے کا ذکر ضرور درمیان میں لاتا ہے۔ وہ ظرافت کا بھی دل دادہ ہوتا ہے کیونکہ بات پہنچانے کے لئے ظرافت ایک آسان طریقہ یا وسیلہ ہوتا ہے۔ اگر بات کسی کو پسند آئی تو یا بسم اللہ اور اگر لگ گئی تو پشت کر کے معافی تلافی کا سہارا۔

اب فواد چودھری کا سیاسی کاروبار کا تجربہ پی ٹی آئی میں کیسا بھی رہا ہو لیکن ان کے مشاہدے اور تجربے سے لگتا ہے کہ عمران کے ساتھ تجربہ ان کے پرسنل سیکرٹری کے وساطت سے ذرا تلخ رہا ہے ورنہ وہ اندر کی باتیں اس طرح سے باہر نہیں لاتے۔

ویسے یہ کریڈٹ ریحام خان کو جاتا ہے کہ وہ اندر کے اس طرح کے مشاہدات اس سے پہلے بھی باہر لا چکی ہیں جس پر انھوں نے اپنی کتاب میں پورا باب باندھا ہے۔ لیکن جو تجربہ فواد چودھری نے بیان کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یہ وہی شخص بیان کر سکتا ہے جن پر خود گزری ہو ورنہ جن کا تجربہ نہ ہو وہ اتنے وثوق کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہیں۔

میری دعا ہے کہ ہر کسی کے تجربے کا کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا رہے تاکہ ان کا مال بدلتا رہے اور ان کو نئے نئے گاہک بھی ملتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments