وہ عجیب رات تھی


اور بات سمجھ میں کب آئی۔

جب ہماری نند کی بیٹی جوان ہوئی اور اس کے رشتے آنے شروع ہوئے تو ہماری نند ایک دن ہمارے گھر آئیں بے حد خوش اور ہیجان میں مبتلا۔

ارے سنو تو ۔ وہ نہیں تھیں جن کا ذکر تم اکثر کیا کرتی تھیں جو تمہارے دادا کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہتی تھیں۔ ارے وہی جو زبردست اردو بولتی تھیں، ان کے پوتے کا رشتہ آیا ہے ہماری راشدہ بیٹی کے لئے۔ لڑکا بہت ہی ہینڈسم۔ بزنس کر رہا ہے خوب کما رہا ہے۔ بات نکلی تو پتہ چلا کہ ایک زمانے میں آپ لوگ ایک ہی شہر میں رہے ہیں۔ واہ بھئی واہ۔ آپ نے تو اسے دیکھا بھی ہو گا۔ تو پھر کیا خیال ہے اس کے بارے میں، دیکھو کیسا اتفاق! پرانے جاننے والے، لڑکا خوبصورت کماؤ۔

بعض راتیں ایسی خاص ہوتی بھی نہیں مگر آپ کی زندگی میں خاص ہو کر رہ جاتی ہیں، خصوصاً جب وہ ایسی راتیں ہوں جب آپ کی عمر خود کچی پکی ہو اور آپ کی زندگی کے تجربے بھی کچے ہی ہوں، شعور بھی پورا نہ ہو اور آپ کو اس قابل بھی نہ سمجھا گیا ہو کہ زندگی کی اونچ نیچ سمجھائی جائے، ۔

تعجب کی بات ہے کہ ایک زمانے میں کبھی بھی یہ ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی کہ بالغ ہوتی لڑکیوں کو اونچ نیچ سمجھائی جائے۔

ایسی ہی ہماری عمر تھی اور ایسے ہی ہمیں پرورش کیا جا رہا تھا، جب ایک رات خالہ ( جو اصل میں نہ ہماری خالہ تھیں، نہ امی کی بہن ) ہمارے گھر میں ٹھہریں اور انھوں نے امی سے تقریباً پون رات باتیں کیں۔ خالہ اپنا دکھڑا رو رہی تھیں یہ کہہ کر کہ بتاؤ پردیس میں یہ رونا کس کے سامنے روتی۔ اب تم پرانی سہیلی بھنیلی ملی ہو، سب کچھ ہی بتاؤں گی تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گا۔

موقع بھی عجیب تھا۔ گرمی کا زمانہ۔ صحن میں سب کے بستر بچھے ہوئے۔ ابا دورے پر گئے تھے اور اماں نے خالہ کو اسی لیے رات کو ٹھہرا لیا تھا ان کے خیال میں وہ دس مردوں کے برابر تھیں۔ ہمارا تجربہ بھی یہ کہتا تھا کہ ہم نے کوئی عورت اب تک ایسی نہیں دیکھی تھی نہ خاندان میں نہ خاندان سے باہر۔ جس تیکھے لہجے میں وہ ہمارے ابا سے بات کرتی تھیں۔ یوں سمجھئے کہ عام دنوں میں ابا شیر تھے اور امی بکری اور دوسری طرف خالہ شیر تھیں اور ابا بکری۔ خوب دھر دھر کے سناتیں۔ ”کہاں جا رہے ہو میاں، پاک پٹن۔ جنت کے دروازے سے نکلو گے جنت مل جائے گی۔ ہوش میں رہو، جنت ایسے نہیں ملتی۔ کام کرنا پڑتا ہے جنت کے لئے۔ سر ماتھا رگڑنے سے کچھ نہیں ہوتا“ ۔ اور ابا گھگھیا کے کچھ کہتے رہتے، خالہ کی آواز میں ان کی آواز دب کر رہ جاتی۔

سو آج جو خالہ جان نے امی سے کہا، بتاؤ پردیس میں یہ رونا کس کے سامنے روتی۔ اب تم ملی ہو تو سب کچھ ہی بتاؤں گی تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گا۔ اتنا سننا تھا کہ کھٹاک سے ہماری نیند بھی اڑ گئی۔ تو ہم فوراً ایسے بن کر لیٹ گئے کی جیسے سوئے ہوئے گھنٹوں گزر گئے ہوں، تقریباً سانس بھی روک ہی لیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ خالہ کی باتیں لچھے دار اور زبان مزیدار جو انھوں نے داستانوں، ناولوں اور افسانوں میں پڑھ کر سیکھ لی تھی۔ ہم تو ایسی زبان لکھ بھی نہیں پاتے جو وہ بے تکان بولتی تھیں۔

بعض راتیں ایسی خاص ہوتی بھی نہیں مگر آپ کی زندگی میں خاص ہو کر رہ جاتی ہیں، خصوصاً جب وہ ایسی راتیں ہوں جب آپ کی عمر خود کچی پکی ہو اور آپ کی زندگی کے تجربے بھی کچے ہی ہوں، شعور بھی پورا نہ ہو اور آپ کو اس قابل بھی نہ سمجھا گیا ہو کہ زندگی کی اونچ نیچ سمجھائی جائے، ۔

تعجب کی بات ہے کہ ایک زمانے میں کبھی بھی یہ ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی کہ بالغ ہوتی لڑکیوں کو اونچ نیچ سمجھائی جائے۔ یہ فرض کر لیا جاتا تھا کہ اسکول کالج میں لڑکیوں کو سب باتوں کا علم ہوتا ہے۔ ان کی سہیلیاں سب کچھ بتا دیتی ہیں جبکہ سہیلیوں کو خود کچھ علم نہیں ہوتا۔ سو ایسی ہی ہماری عمر تھی اور ایسے ہی ہمیں پرورش کیا جا رہا تھا، جب ایک رات خالہ ( جو اصل میں نہ ہماری خالہ تھیں، نہ امی کی بہن ) ہمارے گھر میں ٹھہریں اور انھوں نے امی سے تقریباً پون رات باتیں کیں۔ خالہ اپنا دکھڑا رو رہی تھیں یہ کہہ کر کہ بتاؤ پردیس میں یہ رونا کس کے سامنے روتی۔ اب تم پرانی سہیلی بھنیلی ملی ہو، سب کچھ ہی بتاؤں گی تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گا۔

اتنا سننا تھا کہ کھٹاک سے ہماری نیند بھی اڑ گئی۔ اور ہم نے رات چپکے پڑے رہ کر سننے میں گزاری۔
سو ان کی کہانی شروع ہوئی۔

ہاں جو تم یہ بڑی بی اور اس کی بیٹی دیکھ رہی ہو جو میرے آدھے گھر پر قابض ہیں اور جو میرے سینے پر مونگ دل رہی ہیں، یہ میرے گھر

میں مشرقی پاکستان میں چند دن پناہ لینے آئی تھیں۔ پھر رہ پڑیں کہ حالات بہتر ہوں گے تو چلی جائیں گی۔ حالات تو بہتر نہ ہوئے۔ یہ رہتی رہیں اپنا کھانا پینا الگ کر لیا تھا، مجھ کوئی ایسی تکلیف نہیں تھی۔ کبھی بڑی بی میری طرف آجاتی تھیں۔ دوچار باتیں کر کے چلی جاتی تھیں۔ میں کبھی بیٹے سے کہتی تھی یہ اپنے گھر کب جائیں گی تو وہ ٹال جاتا تھا۔

آخر میں نے اور بیٹے نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا تو بڑی بی بھی اپنا سامان باندھنے لگیں۔ میں نے کہا یہ کیا۔ اب قیامت تک ہمارے ساتھ رہیں گی۔ بولیں۔ شاید ایسا ہی ہو کہ میری بیٹی کی کوکھ میں تمہارا پوتا پل رہا ہے۔

یقین جانو، یہ سن کر میں تو پاگل ہو گئی۔ گھر بھر سر پر اٹھا لیا۔ بیٹا کام پر گیا ہوا تھا۔ ماں بیٹیاں اپنی طرف کا دروازہ بند کر کے بیٹھی رہیں۔ میں بک جھک کر کے صلواتیں سناتی رہی کہ جانے کس کا پاپ میرے بیٹے کے سر منڈھ رہی ہیں۔ بیٹا آیا تو میں نے غصے سے یہی بات اس سے کہی کہ وہ ایسی بات کہہ کر ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔

بیٹے نے کہا ہاں وہ ہمارے ساتھ جائیں گی۔ میں نے کہا وہ دوسری بات۔ اس نے کہا وہ بھی ٹھیک ہے۔

تم سوچ لو میری کیا حالت ہوئی ہوگی۔ کبھی دل چاہتا گھر کو آگ لگا دوں اور کبھی خود کو آگ لگا کے مرجاؤں۔ مگر کچھ بھی نہ کر سکی۔ وہ بھی یہیں ہیں بیٹا بھی یہیں ہے۔ تم جو پوچھتی ہو کہ آپ کا رنگ اتنا سیاہ کیسے ہو گیا تو بہن جل جل کر سیاہ نہ ہوتا تو کیا نور پھوٹتا۔

سو ہمارے بیٹے کا بیٹا پیدا ہو گیا۔ تم نے دیکھا کیسا گورا، گھونگریالے بال۔ بچپن میں جیسا باپ تھا یہ اس سے بھی حسین ہے۔ سنتے آئے تھے کہ ناجائز بچے خوبصورت ہوتے ہیں، سو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

ناجائز بچہ! اب ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ افسانے تو بہت پڑھے تھے، لحاف بھی اور شاید منٹو کے دو ایک افسانے بھی، مگر یہ قصہ کہ جنہیں ہم بڑی عقیدت سے احسان بھائی کہیں ان کا کیریکٹر تو کچھ معیوب سا تھا۔ کیسے؟ اس کا کوئی خاص علم نہیں تھا۔ کچھ باتوں میں مسٹری تھی، کچھ ہمارا ذہن بھی الجھا ہوا تھا۔ کچھ، رات کی بات جیسے خواب کی بات یا شاید راز کی بات تھی، کچھ خالہ اور امی کا انداز بھی رازدارانہ تھا، کچھ ہمارے ذہن کی ناپختگی۔ بس یہی سمجھ میں آیا کہ چپکی پڑی سنتی رہو، تجزیہ بعد میں ہوتا رہے گا۔

خالہ کہہ رہی تھیں پاکستان آنے کے بعد بڑی بی نے میرے بیٹے کو راضی کر لیا کہ اس کی بیٹی جو خود بھی پینتیس سال کی بڑھیا ہے اس سے نکاح پڑھوا لے۔ میں نے کہا حشر کردوں گی اگر ایسا ہوا۔ میں نے کہا ان ماں بیٹی کو سے کہو کوئی اور ٹھکانہ کر لیں۔ میں تیری شادی کرا دوں گی۔ تیری دلہن تیرے بیٹے کو پالے گی یہ سمجھ کر کہ تیری پہلی بیوی سے بچہ ہے جو مر چکی ہے۔

اب بیٹا میری اس بات پر راضی ہو گیا ہے، کیا کرتا وہ بھی مجبور ہے، مجھے بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ بچے کو بھی پالنا ہے۔

سو بہنا، دل ٹکڑے ٹکڑے ہے، نہ بچے کی شادی کا ارمان پورا ہوا۔ ماں بیٹی کو بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ ایک طرف کو پڑی ہیں۔ کھانا پینا ظاہر ہے کہ بیٹا ہی کرتا ہے۔ بس اور کوئی رشتہ نہیں۔ تم سے دل کی بات کہہ دی، اپنا راز سمجھ کر دل میں رکھ لینا۔ اور کوئی غریب سیدھی

سادی لڑکی نظر میں ہو تو بتانا۔
امی کچھ بھی نہ بولیں۔ جیسے انھیں سکتہ ہو گیا ہو۔
تم سے کہہ کر دل کو کچھ ٹھنڈک پڑ گئی۔ اب سو رہو بہت رات ہو گئی۔ یہ کہہ کر خالہ لیٹ گئیں۔

امی بھی اک آہ بھر کر اپنے بستر پر پڑ گئیں اور اب ہماری عجیب حالت۔ پہلے دن سے بتایا گیا کہ یہ جو ہیں خالہ کے بیٹے احسان تمہارے بھائی ہیں اور ہم انھیں بھائی کہنے لگے۔ مگر یہ تو بڑے خطرناک سے بھائی نکلے۔

یہ گورکھ دھندا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ افسانے تو بہت پڑھے تھے جو کچھ سمجھ میں آتے تھے کچھ نہیں، مگر یہ قصہ تو عجیب تھا۔ ادھیڑ عمر کی عورت اور بغیر شادی کے خوبصورت بچہ۔ ناجائز اولاد۔ بھائی صاحب دوسری شادی کو تیار۔

خیر کمبل میں منھ چھپا کر ہم بھی لیٹ رہے۔ نیند بھی کچی پکی رہی کہ جب ناقابل حل معمے ذہن میں ہوں تو نیند کیسے آئے۔

کہانی آگے بڑھتی رہی۔ پہلے احسان بھائی کی شادی ایک سیدھی سادی لڑکی سے ہوئی جو ، اپنے ساتھ دق کے جراثیم لائی۔ اس کو بات کرنے والا کوئی نہ ملا تو جب دیکھو دوسرے حصے میں موجود۔ خالہ نے بہت دفعہ سمجھایا مگر اس کا دل وہیں لگتا تھا چنانچہ جب مرض بڑھا تو اسے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔

بچے کو پالنے کا مسئلہ اپنی جگہ رہا۔ پھر ایک اور شادی ہوئی۔ بچہ پلتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس خاندان سے ہمارا رابطہ ختم ہو گیا۔ کبھی بات نکل آتی تو ہم اس عجیب رات کے بارے میں سوچتے جو کچی عمر میں ایک راز کے طور پر ہم نے سنی تھی اور کچھ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔

اور بات سمجھ میں کب آئی۔

جب ہماری نند کی بیٹی جوان ہوئی اور اس کے رشتے آنے شروع ہوئے تو ہماری نند ایک دن ہمارے گھر آئیں بے حد خوش اور ہیجان میں مبتلا۔

ارے سنو تو ، وہ نہیں تھیں، جنہیں ہم خالہ کہتے تھے۔ نانا کی حویلی کے ایک حصے میں رہتی تھیں، بڑی زبردست اردو بولتی تھیں ان کے پوتے کا رشتہ آیا ہے اپنی بٹو کے لئے۔ لڑکا بہت ہی ہینڈسم، بزنس کر رہا ہے، خوب کما رہا ہے۔ بات نکلی تو پتہ چلا کہ ایک زمانے میں تم لوگ ایک ہی شہر میں رہے ہو۔ واہ بھئی واہ۔ پھر تو تم نے اسے دیکھا بھی ہو گا۔ پھر کیا خیال ہے رشتے کے بارے میں، لڑکا خوبصورت، کماؤ اور پرانے جاننے والے۔

ان کی بات سے یکایک ایک جملہ ذہن سے ٹپکا۔ ناجائز بچے خوبصورت ہوتے ہیں۔
چپ کیوں ہو گئیں، کچھ تو کہو۔ نند نے کہا۔
دوسرا بے تکا جملہ جو منھ سے نکلا وہ تھا۔ ”مگر اس میں بیچارے بچے کا تو کوئی قصور نہیں۔“
کیا بڑبڑا رہی ہو۔ صاف کہو نا، کیا کہہ رہی ہو؟
کچھ نہیں۔
میں نے کہا۔ واقعی سر دست کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اب اس عجیب رات کی کہانی کیا کہتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments