قومی یک جہتی اور خوش حالی


تاریخ کے پنے اس ایک لفظ اور اس کی تعریفوں، فلسفوں اور تفصیلات سے بھرے پڑے ہیں۔ سیاست میں بھی دنیا کے بیشتر ماہرین کسی بھی ملک کی خوش حال کو اس کی قومی یک جہتی سے جوڑتے ہیں۔ قوموں کی سالمیت ہی کا مطلب قومی یک جہتی ہے۔ ہمیں بچپن سے ہی یک جہتی، اتفاق میں برکت ہے، لالچ بری بلا ہے، وغیرہ وغیرہ کہانیاں نصابی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ مگر ان سب رٹ چکی کہانیوں کے باوجود نہ تو ہم میں قومی یک جہتی آئی اور نہ ہی خوش حالی۔

ہمیں قائد اعظمؒ کے فرمان بھی پڑھائے جانے اور منہ زبانی یاد کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ شومئی قسمت ہمارے وہ تمام سیاست باز جو خودی کو بلند کرتے ہوئے اپنے آپ ہی ہمارے لیڈر کہلانے لگتے ہیں ان میں یک جہتی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان سب کی اپنی اپنی پارٹیوں میں ہی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔ طرہ یہ کہ ٹیلے ویژن پر بیٹھ کر رنگارنگ ٹاک شوز میں اپنے مخالفین کی تعریفیں یوں کرتے ہیں : ”یہ میرے بڑے محترم بھائی ہیں۔“ : ”یہ میری بہن ہیں میں ان سے اختلاف نہیں کر رہا مگر جو لوگ ان کو لائے ہیں۔“ کوئی اور بول اٹھتا ہے : ”ہم لوگوں کے لیے کام کریں گے عوام کی خدمت کریں گے۔“ لیکن عوام کو تب سمجھ آتی ہے جب ان کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ سب ڈھونگ ہیں جسے رچانے کے لیے ہمارے سیاست باز اپنے کرداروں میں سوانگ بھرتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی قومی یک جہتی کی اور اس کے بدلے میں پیدا ہونے والی اس خوش حالی کی جوہر قوم کا خواب ہوتی ہے۔

یک جہتی ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے جزئیات کو کسی ایک مرکز یا کل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جب وہ چھوٹی اکائیاں ایک مرکز پر اکٹھی ہو جائیں تو یک جہتی آ جاتی ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی وجہ بھی عوامی یک جہتی تھی جس میں مذہب اور نظریہ دو بڑے عوامل تھے۔ جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو اردو مختلف لوگوں میں رابطے کی زبان بنی۔ 1867 ء میں پیش آنے والا ہندی اردو تنازعہ بھی کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی یک جہتی کا باعث بنا۔

برطانوی مؤرخ رمسے میور نے کہا تھا قومی زبان ہی قومی یک جہتی کا بہترین ذریعہ ہے۔ مغربی مفکرین جغرافیے کے لحاظ سے بھی قومی یک جہتی کو جوڑتے ہیں۔ مگر پاکستان میں مختلف علاقوں، نسلوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک گلدستے میں سجے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا کل جو ان سب کو آپس میں جوڑتا ہے وہ ہے اسلام۔ ہمارے اسی دین میں دوسرے مذاہب اور انسانیت کی تکریم سکھائی گئی ہے۔ ہم اپنی شاندار مشترکہ تہذیب و تاریخ سے بھی منسلک ہیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے میں سیاسی گروہوں اور معاشرتی روایتوں کو جھوٹ کی بجائے سچ کے موتیوں میں پرو دیں تو قومی یک جہتی کو حاصل کرنا مشکل نہ ہو گا۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہم اس یک جہتی کو جس کی کھڑکیاں پڑوسیوں کے گھروں میں کھلا کرتی تھیں بند کر بیٹھے ہیں۔ گئے وقتوں میں ہم گھروں کے ماتھوں کو خوب صورت بنانے کے لیے مہین نمونے والے چھجے بنایا کرتے تھے۔ گھروں کے اندر قیمتی اشیا کی سجاوٹ کے لیے پرچھتیاں استعمال کیا کرتے تھے۔

اکثر اوقات تہواروں پر وہ تمام قیمتی اشیاء اتار کر ان کی جھاڑ پھٹک کی جاتی تھی تاکہ گرد کی آلودگی ان پر جم نہ جائے۔ جدید دور نے پرچھتیاں اور چھجے ختم ہی کر دیے۔ اس ماڈرن زمانے میں ہم نے اپنی قومی یک جہتی کو بھی کہیں چھجے پر رکھ دیا ہے۔ ہم نے یک جہتی کے احساس کو گھروں سے تو نکال ہی دیا اب اسے تلاش کرتے ہیں۔ اپنی نظم اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں۔

ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!
اب تو آس بھی بھکارن لگتی ہے
برس آتے ہیں برس بیت جاتے ہیں
ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
دو چار بہکی بہکی سی لکیریں
سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو
گروہوں میں دیتی ہیں بانٹ
یہاں رکھ دیے ہیں چہرے کر کے چھانٹ
آس امید کے دیے بھی ہلکورے لیتے رہتے ہیں
یہ میرا ہے۔ یہ تیرا ہے۔
ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
تم ایک وزیر بن گئے تو بھول گئے اوقات
ارے جاؤ تم بھی بنو بس صرف تجزیہ کات
جاؤ چپ! ارے چپ! تم چپ
میں یہ! میں وہ! بس تم کچھ نہیں
ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
جمہوریت برابری اور انصاف کی تحریک
یہ ہی کھوکھلے سے نعرے چلتے ہیں یہاں
در حقیقت تو یہاں ہر سو
سرمایہ دارانہ نظام پلتا ہے
ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!
عوام ہمارے نجانے کس موم سے بنے ہیں
پگھل رہے ہیں! بس! پگھل ہی رہے ہیں
دنوں تلک مزدوری بھی نہیں ملتی
غریب کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی
خریدنے سے بھی مگر صحت نہیں ملتی
کام کر کے بھی مگر روٹی نہیں ملتی
ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
کبھی ملٹری! کبھی جمہوریت! کبھی میثاق جمہوریت!
کہاں سے لائیں وہ ایمان اتحاد اور تنظیم
جو بابا جناح نے ہم کو سکھلایا تھا
جو بابا جناح نے کر کے بتلایا تھا
کیا اس وطن کا غریب کسان کبھی
اپنے حصے کا اناج لے پائے گا
علم حاصل کر سکے گا بچہ بچہ اس کا
وہ علم جو ہر مومن مرد و عورت پر فرض ہے
برابری اور جمہور کے خواب دکھانے والو
یک جہتی کو کہاں سے لائیں ہم
کہ ہم رکھ کے اسے چھجے پہ کہیں
بھول گئے ہیں شاید۔
وہ چیز جسے یک جہتی کہا کرتے تھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments