یونیورسٹیوں میں داخلے کا طریقہ کار اور طلبہ کی پریشانی


پچھلے ماہ یعنی ستمبر 2022 میں جب پورا پاکستان سیلاب میں گھرا ہوا تھا ٹھیک اسی وقت پورے ملک میں یونیورسٹیوں میں داخلوں کا سیلاب بھی آیا ہوا تھا۔ بعض یونیورسٹیوں کے داخلہ اشتہارات تو اخبار کے پورے صفحے پر پھیلے ہوتے تھے۔ جن میں ان طلبہ کو بھی داخلہ فارم جمع کروانے کو کہا گیا ہوتا تھا جنہوں نے بارہویں کا امتحان دیا ہوا ہے اور ان کا رزلٹ ابھی نہیں آیا۔ کہیں بھی یہ واضح نہیں تھا کہ داخلہ کن بنیادوں پر ہو گا اور کون سے نکات ہیں جو داخلہ کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔

شاید ہی کوئی طالب علم ایسا جو جو پورا اشتہار پڑھتا ہو اور اسے سمجھ بھی آتی ہو ورنہ طلبہ کو اتنی بات ہی سمجھ آتی ہے کہ داخلہ فارم جمع کروانا ہے۔ جن طلبہ کا رزلٹ نہیں آیا ان کا میرٹ کس طرح بنے گا اور ان کے کوئی الگ سے طریقہ کار ہو گا۔ اگر نہیں تو کیسے ممکن ہے کہ جن کے نمبروں کا پتہ ہے اور جن کے نمبروں کا پتہ نہیں ان کا ایک ہی فارمولے سے میرٹ بن جائے۔

داخلہ فارم کے ساتھ مقررہ فیس بھی ادا کرنا ہے جو کہ ہو یونیورسٹی کی اپنی طے شدہ ہے۔ اگر ایک طالبعلم نے ایک سے زیادہ شعبہ جات میں فارم جمع کروانا ہے تو ہر ایک کی الگ فیس دینا ہو گی۔ اگر دیکھا جائے تو ایک طالبعلم کے ٹیسٹ لینے پر کتنا خرچ آ سکتا ہے دوسری طرف یہ فیس 1000 سے 2000 تک لی جاتی ہے جو والدین پر ایک بوجھ ڈالنے والی بات ہے۔ اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو یونیورسٹی کی کمائی تو ہو گئی لیکن والدین پر کیا گزری یہ وہ جانیں یا اللہ جانے۔

یونیورسٹیوں نے آن لائن داخلہ فارم جمع کروانے کا اعلان تو کر دیا۔ لیکن اس آن لائن کے کو مسائل پاکستان میں ہیں شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں۔ کبھی نیٹ سروس نہیں تو کبھی یونیورسٹی کی ویب سائٹ کا نہ کھلنا۔ لیکن ان سے اداروں کا کچھ لینا دینا نہیں انہوں نے تو آن لائن کر دیا اب طلبہ جانیں اور ان کا کام۔

ٹیسٹ کے بعد ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے وہ ہے میرٹ لسٹوں کا لگنا۔ ان لسٹوں میں کہیں ذکر نہیں ہوتا کہ جن کا رزلٹ نہیں آیا تھا ان کو میرٹ لسٹ میں کیسے شامل کیا گیا۔ ان کے نمبر کیسے ترتیب دیے گے۔ جب یونیورسٹیوں نے اپنے ٹیسٹ کا اعلان کر دیا تو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انڈر گریجویٹ پروگرام میں داخلے کے لیے ایک ٹیسٹ کا اعلان کر دیا اور لازم قرار دیا کہ جو طالبعلم کسی بھی انڈر گریجوایٹ پروگرام میں داخلہ لینا چاہے اسے یہ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہو گا۔

اور ٹیسٹ کی فیس 1200 مقرر کی۔ اب یہاں طالبعلم تو شاید پریشان نہ ہوئے ہوں لیکن والدین ضرور پریشان ہونے ہوں گے کہ اب 1200 اور بھی دینا پڑے گے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مختلف گروپوں کے لیے سلیبس بھی متعین کیا۔ دوسری طرف صرف پنجاب یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یہ حکم نامہ لگایا اور طلبہ کو آگاہ کیا کہ انڈر گریجویٹ پروگرامز میں داخلہ کے لیے یہ ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر طلبہ یہ پوچھتے نظر آئے کہ اب ان کے لیے یونیورسٹی کا کیا حکم ہے اسی دوران کچھ یونیورسٹیوں نے اپنے ٹیسٹ لے بھی لیے تھے۔

پنجاب اور وفاقی علاقے کی یونیورسٹیوں نے ستمبر میں داخلوں کا سارا عمل مکمل کر لیا اور اکتوبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے کلاسز کے آغاز کا اعلان کیا تھا جب کہ پنجاب کے تعلیمی بورڈز نے تو بہت پہلے ہی نتائج کی تاریخوں کا اعلان کر رکھا تھا جو کہ اکتوبر /نومبر تھا اور کے پی کے بورڈز کا رزلٹ 6 اکتوبر کو آیا۔ اب کے پی کے طلبہ نے ٹیسٹ فیس بھی دی لیکن داخلی سے محروم رہے اسی طرح پنجاب کے طلبہ نے بھی ٹیسٹ فیس دی لیکن وہ بھی داخلہ نہ لے سکے۔

اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو پریشانی والدین اور طلبہ کو ہی دیکھنا پڑی۔ طلبہ آخری وقت تک پریشان تھے کہ انہیں کون سا ٹیسٹ دینا ہے۔ میرٹ لسٹوں کے بعد جن کا داخلہ نہیں ہو سکا ان کو کوئی اطلاع نہیں کہ وہ میرٹ میں کہاں رہے۔ یونیورسٹی نے میرٹ لگا دیا۔ یہی فائنل ہے اسے ہی قبول کرنا پڑے گا۔ کیا یونیورسٹی کا میرٹ بنانے کا طریقہ کار اتنا شفاف ہے کہ اس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر لیا جائے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کی ایسا طریقہ کار متعارف کروائے کی جونہی طالب علم اپنا فارم بھرے اس کا میرٹ سامنے آ جائے۔ اور طالب علم کا داخلہ ہو یا نہ ہو اسے ہر قدم پر معلومات دی جائے۔ اگر ہر یونیورسٹی نے اپنا طریقہ کار ہی اپنانا ہے تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کیا افادیت ہے

بظاہر تو یونیورسٹیوں میں داخلی کا کوئی مربوط نظام نظر نہیں آتا۔ لیکن ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام یونیورسٹیوں کے داخلہ کی کوئی یکساں پالیسی بنائے اور اس پر عملدرآمد بھی کروائے۔ اور اس داخلی فیس کو کم کرے تاکہ والدین پر بوجھ نہ پڑے۔

موجودہ دور میں جہاں زندگی پہلے ہی بہت مشکل ہو چکی ہے کیا والدین کے لیے یہ فیس ادا کرنا ممکن ہے
نظر تو ایسا آتا ہے کہ یونیورسٹیوں نے داخلہ فیس کے نام پر پیسہ بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

کچھ عرصے سے یونیورسٹی کی تعلیم پر مختلف اطراف سے مختلف پالیسیوں پر تنقید ہو رہی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام یونیورسٹیوں کے داخلہ کے طریقہ کار کو آسان اور واضح کرے تاکہ طلبہ اور۔ والدین کو پریشانیوں سے بچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments