سوات احتجاج، وین ڈرائیور کا قتل اور ملالہ یوسفزئی


عجب اتفاق ہے دو ہزار بارہ اور دو ہزار بائیس کے سانحات میں۔ گلی باغ، نجی سکول، وین ڈرائیور اور دن دیہاڑے قتل۔ ایک واقعے پر تمام سٹیٹ مشینری حرکت میں آجاتی ہے اس وقت کی سرکار اور آرمی چیف صاحب خود اپنی زیر نگرانی مضروبہ کو ہیلی کاپٹر میں پہلے پشاور پھر اسلام آباد اور بعد ازاں علاج معالجے کے لئے انگلستان منتقل کرتے ہیں۔

جو بعد میں اپنی تعلیمی نسواں کی جد و جہد میں کم عمر ترین نوبل انعام کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ دنیا جہاں میں مقبول ہو جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عورتوں اور بچوں کی تعلیم کے لئے ان کو مختص کیا جاتا ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان سے محبت و ارینجمنٹ پر مبنی شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں بھی پاکستان کے دورے سے سرفراز ہونے کے دوران اپنے آبائی علاقے سوات سے بھی ہو آتی ہے۔

اس بار بھی ملالہ یوسف زئی پاکستان آئی ہوئی ہے اور عین اس وقت آن پہنچی ہے جب ایک بار پھر لوگ دو ہزار بارہ جیسے حالات کو روکنے کے لئے ایک پرہجوم احتجاج کی شکل میں پیش بندی کر رہے ہیں۔

اس بار بھی سکول وین کے ڈرائیور کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس کی لاش کو ان کے لواحقین گلی باغ میں احتجاج کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈ آیا ہے۔ اس احتجاجی جلسے سے افراسیاب خٹک، ایمل ولی خان، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، سردار حسین بابک، مختیار یوسفزئی، ایوب اشاڑئی اور منظور پشتین کے علاوہ دیگر مقررین خطاب کرتے ہیں اور امن و امان سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہیں۔

دو ہزار بارہ کے سانحے کے بعد جس طرح انتظامی مشینری فنکشن میں آئی تھی وہ اس بار نظر نہیں آئی جس سے لوگوں میں نہ صرف عدم تحفظ کا احساس ابھرا بلکہ ایک پر امن احتجاجی جلسے کی صورت میں لوگوں نے اپنا پروٹیسٹ بھی ریکارڈ کرایا۔

ہر لیڈر نے اپنے اپنے دانست میں موقعے محل کے ساتھ ٹو دی پوائنٹ بات کی اور احتجاجی مظاہرے کے جم غفیر کے غیظ و غضب جو مختلف طرح کے سلوگن کی شکل میں سوات کی فضاؤں میں گونج رہے تھے کو سیاسی بیانئے میں بدلنے کی سعی حاصل کی جانب بڑھا کر آئندہ الٹی میٹم تک نیم گرم حالت میں چھوڑا۔

سیاسی طور پر اس ”اتفاق“ کو بہت بڑا اتفاق و اتحاد قرار دیا گیا لیکن انصاف مانگنے والا اگر انصاف مانگتے مانگتے یا عین احتجاج کے دوران یہ کہیں کہ قتل کرنا تو درکنار دہشت گرد گردان کر مارے جا رہے ہیں تو اس بے بسی کے علانیہ بیانیہ کو کیا نام دیا جائے گا اور مزید یہ کہ ارباب اختیار کے بس میں اتنا کچھ ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں؟ ویسے حقیقت ہی یہی ہے کہ ارباب اختیار بے اختیار ہے ورنہ نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں۔

جب وزیراعلی اتنا بے بس لاچار اور بے اختیار ہو کہ وہ اپنے حلقے اور مقامی حالات واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لے سکتے تو پھر گلہ کس سے البتہ اوپر اوپر سے ہیلی کاپٹر سے ہاتھ ہلا ہلا کر سلامی ضرور لے سکتے ہیں۔ اب یہ ان کو پتہ ہو گا کہ نیچے سے عوام ان کو ہاتھ ہلا ہلا کر سلام بھیج رہے ہیں یا ہاتھ کے اشاروں سے کچھ اور پیغام بھیج رہے ہیں۔

اس وقت جب سوات گلی باغ میں وین ڈرائیور کی لاش ان کے لواحقین مین چوک پر رکھ کر اس پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے تھے ملالہ یوسف زئی عین اس وقت کراچی کے پوش علاقے عزیز آباد کے ایلیمنٹری کالج کے اساتذہ سے تعلیم کے فروغ کے لئے محو گفتگو تھی اور خاتون پاکستان کالج کے دورے پر اساتذہ اور طلباء سے فوٹو سیشن کی خوش گپیوں میں مگن تھی۔ اور جب وین ڈرائیور کو لاکھوں لوگوں کے جم غفیر میں آہوں اور سسکیوں میں دفنا یا جا رہا تھا تو ملالہ یوسفزئی کالج میں ایک گھنٹے سے زائد وقت گزار کر سخت سیکیورٹی کے حصار میں واپس چلی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments