شیر شاہ سوری بننے آیا تھا ظالموں نے بھیڑ شاہ سوری بنا ڈالا


سابق وزیراعظم عمران خان نے بعض صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب میری حکومت تھی تو تمام کاموں کی ذمہ داری مجھ پر تھی تاہم اصل طاقت کسی اور کے پاس تھی، ذمہ داری میری تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی تھی، مجھے ساڑھے 3 سال میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کر لیتے۔

تعجب ہے کہ عمران خان کا آئیڈیل وہ شخص ہے جو تاریخی طور پر پٹواریوں کا باوا آدم کہلانے کا سزاوار ہے۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ شیر شاہ سوری تھا کون۔ یہ ایک پٹھان سپاہی تھا جس کا دادا ہارس ٹریڈنگ کیا کرتا تھا اور اس کا ابا ایک جاگیردار اور فوجی سردار تھا۔ جب کوئی مشہور ہو جائے تو قصیدے کہنے اور قصے گھڑنے والے اسے مفت میں مل جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قصہ بتایا جاتا ہے کہ وہ بابر بادشاہ کے دیگر امرا کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھا تو گوشت کھانے میں اسے دقت پیش آئی۔ اسی بات سے بادشاہ کے باورچی کی نالائقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہرحال شیر شاہ نے کہ اس وقت فرید خان کہلاتا تھا، نیام سے خنجر کھینچا اور بکرا اس سے کاٹ کر کھانے لگا۔ بابر کہ بڑا تجربہ کار بادشاہ تھا، بارہ برس کی عمر سے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا اور رشتے داروں سے جوتے کھاتا آ رہا تھا، یہ دیکھتے ہی جان لیا کہ یہ بندہ اگر باہر نکل گیا تو بہت خطرناک ہو جائے گا۔ اسے فرید خان کے خنجر سے کٹتے بکرے کی جگہ اپنا وجود دکھائی دینے لگا۔ اس نے اپنے ایک سردار کو فرید خان پر نظر رکھنے کا کہا۔ فرید خان کی بکرا شناسی بلا کی تھی، وہ بادشاہ کی نظریں کھانے کی بجائے خود پر مرکوز دیکھ کر جان گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ وہ بھاگ نکلا۔

ہمایوں تخت نشین ہوا تو فرید خان نے بغاوت کی اور شیر شاہ سوری کے نام سے تخت نشین ہوا۔ جنگیں شروع ہوئیں۔ ایک تاریخی قصے میں بتایا جاتا ہے جنگیں وغیرہ چل رہی تھیں کہ چتوڑ کی مہارانی کرناوتی نے قاصد کے ہاتھوں ہمایوں کو راکھی بھیج کر بھائی بنا لیا اور پیغام بھیجا کہ دشمنوں نے میرا گڑھ گھیر رکھا ہے، بھیا مجھے بچا لو۔ فرید خان کو اطلاع ملی تو اس نے ہمایوں کو پیام بھیجا کہ جاؤ تم پہلے راجستھان ہو آؤ کہ بہن کی پکار پر مدد کے لیے نہ جانا مردانگی کے خلاف ہے۔ یوں اس نے ہمایوں میں خوب پھونک بھر کر اسے راجستھان کے رانوں اور گجرات کے گجروں سے لڑنے اور نقصان اٹھانے بھیج دیا۔ ہمایوں وہاں سے لڑ بھڑ کر واپس آیا تو کچھ مدت بعد شیر شاہ سوری نے اسے شکست دے کر ایران چلتا کر دیا۔

اس کے بعد کامل پانچ برس شیر شاہ سوری نے سکون سے حکومت کی۔ ہمایوں ایک عالم فاضل شخص تھا۔ ستاروں وغیرہ میں خوب دلچسپی لیا کرتا تھا۔ جبکہ شیر شاہ سوری کو سڑکیں اور انفراسٹرکچر بنانے میں دلچسپی تھی۔ اب ایک باشعور شخص تو یہی کہے گا کہ سڑکیں بنانے سے قوم نہیں بنا کرتی، مگر بہرحال شیر شاہ سوری کا مزاج کچھ کچھ نواز شریف جیسا تھا۔ اس نے بہار سے پشاور تک ہر کوس پر مینار، کنواں اور سرائے بنا ڈالے۔ بظاہر پانچ برس کی مدت اس کام کے لیے تھوڑی ہے مگر وہ ضرور شہباز سپیڈ سے کام کرتا ہو گا۔ زمین اور مالیے کا موجودہ نظام بھی اسی کا قائم کردہ ہے۔ یعنی پٹواریوں کا باوا آدم شیر شاہ سوری ہی ہے۔ گویا اسے شریف خاندان کا ہیرو کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

بعض مورخین کے مطابق وہ انصاف وغیرہ فراہم کرنے کے معاملے میں بھی خوب چست تھا اور پولیس نے غالباً اسی کے زمانے میں یہ اصول بنایا کہ اگر اپنی گردن بچانی ہے تو کہیں سے بھی مجرم پیدا کر دو اور بلی چڑھا دو، خواہ اس نے جرم کیا ہو یا نہ کیا ہو، ورنہ شاہ نہیں چھوڑے گا۔ قصہ مختصر کہ شیر شاہ سوری ایک باکمال بادشاہ تھا جو معمولی سپاہی کے رتبے سے بلند ہو کر بادشاہ بنا اور ایسا بادشاہ بنا کہ اس کا قائم کردہ نظام اور رائج کردہ اصلاحات بعد میں مغلوں اور انگریزوں نے بھی اپنائیں اور ہم آج تک انہیں بھگت رہے ہیں۔

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فرید خان اپنی طاقت کے بل بوتے پر شیر شاہ سوری بنا۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ عمران خان کی شکایت کچھ یوں ہے کہ شیر شاہ سوری میں نے بننا تھا، لیکن جس شیر کے پاس طاقت تھی وہ شاہ بن گیا اور میں اب سوری ہوں۔

خان صاحب کے بیانات پر یقین کیا جائے تو منظر کچھ یوں بنتا ہے : شیر نے خان صاحب کو ایک پیج پر رکھا، جنم جنم ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائیں، 2028 تک وزیراعظم بنانے کا یقین دلایا، قانون سازی یا انتخاب کے لیے درکار ممبران مہیا کیے، اور جب خان صاحب خوب دولہا بن کر اقتدار کی دلہن کے پاس حجلہ عروسی میں پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ نکاح نامے پر نام تو ان کا تھا مگر مرضی اقتدار کی دلہن کے ابا کی چلنی تھی۔ نام خان صاحب کا تھا مگر حکم دلہن کے ابا کا تھا۔ جو کام غلط ہو جاتا تھا اس کی ذمہ داری ان پر عائد کر دی جاتی تھی۔ بہرحال اس سلسلے میں ان کی ذاتی پرفارمنس بھی کمال تھی جس کی ذمہ داری اٹھانے کو کوئی دوسرا تیار نہ ہوتا۔

دوسرے لفظوں میں ان کا مقام وہی تھا جو تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا کا بیان ہوا ہے۔ کہنے کو شہنشاہ ہندوستان محمد شاہ رنگیلا تھا، مگر کوہ نور سے لے کر تخت طاؤس تک نادر شاہ درانی استعمال کیا کرتا تھا۔ جو فرمان نادر شاہی کہتا جاری ہو جاتا، جس حکم نامے پر شاہی مہر درکار ہوتی، وہ شہنشاہ ہند محمد شاہ رنگیلا کو لگائے ہی بنتی۔ یعنی حکمران نہ ہوا گڈریے کے گلے میں موجود بھیڑ بن گیا۔ یاد رہے کہ نادر شاہ تھا بھی گڈریوں کی قوم سے جو رفتہ رفتہ ترقی کر کے بادشاہ بنا۔ غالباً اسی سبب اسے بھیڑوں کو ہانکنے میں کمال حاصل تھا۔

یوں شیر شاہ سوری بننے کا ارمان دل میں رکھنے والے عمران خان کی قسمت میں بھیڑ شاہ سوری بننا رہ گیا۔ جس طرف گڈریے نے بھیڑ کو ہانک دیا، بھیڑ نے وہیں کا رخ کیا اور اپنی حالت پر خود سے سوری کرتی رہی۔ یہ کیفیت سوری اس وقت عروج پر پہنچی جب اقتدار کی دلہن کے ابا نے ان کے ہاتھ میں خلع نامہ تھما کر ایک شریف بندے کو نیا دولہا بنا ڈالا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments