افغان طالبان کے خلاف سرگرمیاں


افغان باغی گروپ کے رہنما احمد مسعود نے گزشتہ دنوں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک کانفرنس سے خطاب میں افغان تارکین وطن پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، انہوں نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اپیل کو ایک نئے مرحلے کا آغاز سمجھا جائے۔ افغانستان کی وادی پنجشیر میں بغاوت کرنے والے مسلح گروپ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) کے سربراہ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ ہم تارکین وطن کو متحد کرنا چاہتے ہیں اور آہستہ آہستہ بات چیت کو آگے بڑھا کر اس مقام تک پہنچنا چاہتے ہیں جہاں ہمارے پاس افغانستان کے مستقبل کے لیے روڈ میپ موجود ہے۔

اطلاعات کے مطابق ویانا کانفرنس میں تقریباً 30 طالبان مخالفین راہنما شریک ہوئے جن میں سے زیادہ تر یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ احمد مسعود نے ویانا میں طالبان مخالف افغان راہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارا مقصد کبھی بھی جنگ کو دوام دینا نہیں ہے بلکہ ہم جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، مسعود کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی برادری افغانستان سے لاتعلق ہو چکی ہے اور ان کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے۔

افغانستان سے متعلق اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احمد مسعود اس وقت افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کے علامت کے طور پر سامنے آئے ہیں جو شروع کے دنوں میں نہ صرف وادی پنج شیر میں طالبان کے خلاف مزاحمتی قوتوں کی قیادت کرتے ہوئے خود برسر پیکار رہے ہیں بلکہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو طالبان مخالف افغان گروپوں کے متفقہ مزاحمتی راہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والی وادی پنج شیر کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پچھلے دنوں طالبان کو پنج شیر میں اس وقت بڑا دھچکا لگا جب ان کے پولیس انٹیلی جنس کے سربراہ حاجی ملک خان مخالفین سے جا ملے تھے۔ پنج شیر کے حاجی ملک نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ دیگر علاقوں سے جنگجو پنج شیر نہ بھیجیں کیونکہ مقامی تاجک آبادی دیگر علاقوں کے لوگوں کو برداشت نہیں کرے گی لیکن طالبان نے جنوبی علاقوں سے یہاں جاری مزاحمت کچلنے کے لیے جنگجو بھیج دیے تھے جنہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کو پنج شیر کے پہاڑی سلسلوں کا زیادہ علم نہیں ہے اور ان کو مقامی تاجک آبادی کی بھی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ طالبان کے لیے اسی طرح خطرات کا باعث بن سکتا ہے جس طرح ماضی میں امریکی حملے کے وقت شبرغان اور مزار شریف میں طالبان کو شمالی اتحاد کے ہاتھوں یرغمال بن کر شدید ترین جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

یہاں اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ طالبان اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی پنج شیر پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکے تھے البتہ اس وقت شہر اور کئی دیگر علاقے ان کے کنٹرول میں ہیں لیکن کئی پیچیدہ درے ان کے کنٹرول سے اب بھی باہر ہیں اور وہاں سے مزاحمت جاری رہنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر افغانستان کی موجودہ صورتحال بالخصوص پہلے ترکی اور اب ویانا میں ہونے والے طالبان مخالف اجلاس کے تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان حکومت پر اگر ایک طرف ملک کے اندر اور باہر مخالفین کا دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر بھی ان پر ہونے والی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے نیز خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دینے کے بعد اب طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کمیشن سمیت کئی اہم ریاستی اداروں کے خاتمے کے اعلان کے ذریعے طالبان بین الاقوامی سطح پر پہلے سے موجود مشکلات میں خود مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ طالبان کے عجلت میں کیے جانے والے ان اقدامات سے یہ تاثر بھی مستحکم ہو رہا ہے کہ وہ افغانستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنا چاہتے ہیں جو ان کے سیاسی نمائندوں کے بار بار عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان ایک کثیر اللسانی اور کثیر الاقومی ملک ہے اور یہاں پر تن تنہا کوئی ایک گروپ بھی حکومت تشکیل نہیں دے سکتا اور اگر ماضی میں کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی بھی ہے تو اس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ طالبان بھی تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اب تک ایک وسیع البنیاد قومی حکومت بنانے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں تمام اقوام اور شخصیات کو نمائندگی دی گئی ہے حالانکہ طالبان کے اس موقف کو کوئی بھی نہیں مانتا اور ان کا یہی نقطہ نظر ان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اسی طرح طالبان کو اپنی بین الاقوامی قبولیت کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے کم از کم اپنے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور چین کو تو ہرحال میں اعتماد میں لینا ہو گا لیکن ان کی طرف سے تاحال ایسی کسی پیش رفت کا نظر نہ آنا خود ان کے مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا ایسے میں اگر طالبان مخالف قوتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجاتی ہیں اور انہیں بین الاقوامی سپورٹ بھی مل جاتی ہے جس کے ملنے کے قوی امکانات ہیں تو ایسے میں جہاں یہ خطہ ایک بار پھر ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو سکتا ہے وہاں اس ساری صورتحال کا ایک بار پھر سب سے زیادہ نقصان اور خمیازہ افغان عوام اور افغان سرزمین کو بھگتنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments