گلابی اکتوبر اور پنک ربن


 

اکتوبر کا گلابی مہینہ آسمان پر بدلتے ہوئے رنگوں کی قوس قزح کی خوب صورتی کا مہکتا مہینہ ہے۔ اکتوبر جاڑے کے موسم کا ہر کارہ ہے اکتوبر میں درخت کہیں اپنے پیراہن کے رنگ بدلنے لگتے ہیں اکتوبر کی شامیں خوش گوار ہونے لگتی ہیں۔ پہاڑوں پر آسمان کے رنگ کہیں سرمئی، مٹیالے، کاسنی اور کہیں نرم گلابی نظر آتے ہیں۔ عشاق کے دلوں میں تمنائیں کروٹیں لینے لگتی ہیں۔ تخلیق کاروں کا دل چاہتا ہے اپنی چھوٹی سی تصوراتی دنیا میں بیٹھ کر بس گنگناتے رہیں۔

پچھلے ہفتے میں بھی اپنی نظموں کو کھڈی پر چڑھائے خیالات کے مختلف دھاگوں کی بنت میں غرق تھی کہ کنٹرولر نیوز پنجاب ریڈیو کے سینئر براڈ کاسٹر سجاد پرویز صاحب کا فون آ گیا۔ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے اکتوبر پوری دنیا میں خواتین میں چھاتی کے سرطان سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے سجاد پرویز صاحب نے ”لاہور انسائیٹ“ میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے خصوصی شو کا انعقاد کیا جس کی میزبانی کے فرائض معروف مصنفہ، ناول نگار اور کالم نگار آمنہ مفتی نے سر انجام دیے۔

مجھے بھی تجزیے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اس پروگرام میں پاکستان کی واحد سرٹیفائیڈ یوگا کی ماہر عالیہ آغا نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ عالیہ خود گزشتہ برس اکتوبر ہی کے مہینے میں چھاتی کے سرطان کا شکار ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح انسان اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اسے اپنا خیال بھی خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔ جب ان کو پہلی دفعہ اپنی بغل میں ایک ڈھیلہ یا گلٹی محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے فیملی کے ایک ممبر کو بتایا وہاں سے جواب آیا کل دیکھتے ہیں اور آٹھ مہینے تک وہ کل نہیں آئی حتیٰ کہ وہ گلٹی ان کی بریسٹ میں اتر آئی۔

بس وہی وقت ان کی زندگی میں فیصلہ کن تھا اسی لمحے وہ اٹھیں اور اپنے قدموں پر چل کر dignostic center ٹیسٹ کروانے پہنچیں۔ ان کی سکریننگ کے بعد پتہ چلا کہ یہ کوئی سادہ گلٹی نہیں انہوں نے اپنی ٹیسٹ رپورٹس شوکت خانم لاہور بھجوائیں چونکہ وہ اسلام آباد رہتی ہیں۔ بہت ہی دہلا دینے والی خبر سے پتہ چلا کہ وہ چھاتی کے جان لیوا سرطان میں مبتلا ہیں۔ ان کی کیمو تھراپی شروع ہو گئی۔ ایک عورت کا حسن اس کے بالوں میں ہوتا ہے عالیہ کے خوب صورت بال بھی تیزی سے گرنے لگے۔

وہ خاصی بد دل ہو گئیں لیکن ہمت نہ ہاری۔ سجاد نے عالیہ سے سوال کیا کہ آپ خواتین کو کیا مشورہ دیں گی چھاتی کے سرطان کے حوالے سے۔ عالیہ نے بتایا کہ بریسٹ کینسر ڈرنے کی چیز نہیں۔ یہ سچ ہے اس بیماری کا نام ہی انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے لیکن اگر خواتین اپنی بغلوں اور چھاتی کا متواتر جائزہ لیتی رہیں اور بروقت میمو گرامی کروائیں تو اس بیماری کو شکست دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ کے گھر کے مرد آپ کو ڈھو کر اسپتالوں میں لے جائیں۔

آپ خود نکلیں کہ یہ آپ کی زندگی ہے۔ اس بات پر میں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا عالیہ نہیں اس ملک کی تقریباً 50 % عورتیں اپنے مردوں پر ہی انحصار کرتی ہیں۔ ان کو یہ شعور ہی نہیں دیا جاتا کہ ان کی زندگی ان کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت سے جڑی ہوئی ہے دوسرے وہ مالی اعتبار سے بھی چونکہ مردوں ہی کی مرہون منت ہوتی ہیں تو خود انحصاری کیسے آئے گی۔ آمنہ مفتی نے نکتہ اٹھایا کہ ہمیں گھروں میں بتایا جاتا ہے کہ اپنے جسم کے پرائیویٹ پارٹس کی کوئی بات نہیں کرنی خواتین کو شرم بالائے طاق رکھ کر یہ باتیں کم از کم اپنے گھر کی خواتین کو ضرور بتانی چاہئیں تاکہ بروقت علاج ممکن بنایا جا سکے۔

میں نے کہا ہمارے غریب ملک میں چونکہ غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو حکومت وقت کو چاہیے کہ صحت کے فنڈز کو عام کیا جائے تاکہ غریب طبقے کی عورتوں کے مہنگے ٹیسٹ مفت ہوں۔ میرا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ملکوں میں خواتین میں چھاتی کا کینسر بہت تیزی سے پھیلنے کی وجہ دراصل مغرب کے انداز زندگی کو اپنانا ہے۔ فاسٹ فوڈ اور مائیکرو ویو، پلاسٹک کے برتن وغیرہ کا بے دریغ استعمال ہر طبقے میں پھیل چکا ہے۔ اسی دوران عالیہ صاحبہ نے بھی بتایا کہ ہمیں ہر صورت اپنی زندگیوں سے پلاسٹک کو نکالنا ہو گا۔

پلاسٹک نہ تو جلتا ہے نہ زمین میں دفن ہوتا ہے اور نہ ہی ری سائیکل ہو سکتا ہے۔ بچوں کو تازہ کھانا اور سادہ غذا کی عادت ڈالیں فاسٹ فوڈ اور مائیکرو ویو سے نکلتی ہوئی شعاعیں بھی کھانے کو زہر بناتی ہیں۔ زندگی میں کامیابیاں مشکل حالات سے نپٹنے کے بعد ہی ملتی ہیں۔ زندگی امتحان ہے۔ ہمارے اندر کی مافوق الفطرت خوبصورتی ہمارے صبر، رحم دلی، خدا پر توکل اور ثابت قدمی پر منحصر ہے۔ اس زندگی کو کامیابی سے جینے کے لیے ہمیں اپنے دلوں سے تلخیوں کو نکالنا ہو گا۔

ہم سب نے بچپن ہی سے سنا ہے ”Nip it in the bud“ لیکن بدقسمتی سے خواتین اپنے لیے وقت نہیں نکالتیں حتیٰ کہ صحت سے غفلت سرطان کے پھوڑے کی طرح جسم میں درد کی طرح پھیل جاتا ہے۔ اگر ماں صحت مند اور طاقتور ہوگی تو اس کی یہی طاقت بچوں میں منتقل ہوگی چونکہ وہ گھر کی اہم ترین ہستی ہے جس کے گرد سب بچے گھومتے ہیں۔ عورتوں کو اپنی صحت کا خیال خود رکھنا ہو گا۔ ہلکی پھلکی ورزش کو زندگی کا حصہ بنائیں۔ بے جا نفسیاتی بوجھ اور غصے سے بچیں۔

پاکستان میں پنک ربن کی برینڈ ایمبیسڈر خاتون اول لیڈی ڈاکٹر ثمینہ علوی کا ریڈیو پاکستان کے لیے بہت درد مندانہ پیغام بھی سامعین کے لیے نشر کیا گیا۔ عالیہ آغا نے مزید بتا کہ خواتین میک اپ کے بے جا استعمال سے پرہیز کریں شیمپو جس کے اجزا میں سلفر شامل ہو وہ ہر گز استعمال نہ کریں۔ سادہ طرز زندگی اپنائیں۔ میں دوبارہ اس کالم کے ذریعے حکومت وقت سے استدعا کروں گی کہ ہماری ان خواتین کے لیے جو مقدور بھر گنجائش نہیں رکھتیں ایسی بیماریوں کے لیے خصوصی فنڈز مقرر کیے جائیں تاکہ اپنا علاج کروانے کی متحمل ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments