اورنج ٹرین میں ایک خبطی بابا اور بے بس استانی


حال ہی میں برینڈ آف دی ائر کا ایوارڈ جیتنے والی اورنج لائن ٹرین پر متعدد شہریوں کو صرف انجوائے کرنے، ٹرین روٹ سے لاہور کا ایک طرح سے فضائی جائزہ لینے ( جن میں شالا مار باغ، ریلوے سٹیشن، چوبرجی، اور تاریخی مال روڈ، انارکلی، جی پی او کا انڈر گراؤنڈ سفر بھی شامل ہے ) اور صرف ٹرین کے سفر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی سفر کرتے دیکھا ہے، بلاشبہ اورنج لائن ٹرین پر سفر ایک طرح سے پکنک ہی پے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ اس پر سفر کرنے آتے ہیں۔

گزشتہ روز سفر کے دوران ایک سٹیشن پر جب ٹرین رکی تو اچانک سیکیورٹی کے تین سے چار آفیسرز واکی ٹاکی تھامے ٹرین کی آخری بوگی میں داخل ہوئے۔ ٹرین اور خصوصاً آخری بوگی میں اس وقت رش نا ہونے کے برابر تھا سیکورٹی آفیسرز نے بوگی میں موجود سب مسافروں سے بڑے ہی اخلاق بھرے لہجے میں درخواست کی کہ براہ مہربانی اس بوگی کو خالی کر کے اگلی بوگیوں میں تشریف لے جائیں کیونکہ چند اسٹیشنز کے بعد یہاں نزدیک میں واقع سکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ایک ٹرپ آنے والا ہے جنہیں ان کی ٹیچر ٹرین کے بارے میں معلومات فراہم کریں گی اور سفر کرنا بھی سکھائیں گی۔

دراصل بچوں کا ٹرین کا تعلیمی سفر تو اسٹیشن کے زینے چڑھنے سے ہی شروع ہو چکا تھا جن میں آگے وینڈنگ مشین سے ٹوکن کیسے لینا پھر اس ٹوکن کو سکین کرنا پھر بالائی منزل کے زینے پر چڑھنا، ٹرین کا آنا، کس جگہ کھڑے ہو کر ٹرین کا انتظار کرنا، ٹرین کے خودکار دروازے اور پلیٹ فارم کے خودکار دروازے کھلنے کا انتظار کرنا یہ سب کچھ بچوں کی ٹیچر انہیں سکھا چکی تھی۔ اب انہیں دوران سفر ٹرین کا نیویگیشن سسٹم سمجھانا سٹیشنز کے خودکار اعلانات کو سمجھنا اور ٹرین میں سفر کے آداب یہ سب سکھانا مقصود تھا چنانچہ جیسے ہی سیکیورٹی آفیسرز نے درخواست کی میرے سمیت چند ایک لوگ جو آخری بوگی میں تھے ہم نے فوراً جگہ چھوڑی اور ٹرین کے اندر ہی چلتے ہوئے اگلی بوگی میں آ گئے۔

اسی دوران ٹرین اگلے اسٹیشن پر رکی تو سیکیورٹی آفیسرز کے روکتے روکتے ایک انتہائی خبطی قسم کا انکل نما بابا بیگ اٹھائے آخری بوگی میں آ بیٹھا اب جب یہی بات آفیسرز نے اس کے گوش گزار کی تو خبطی بابا جو حلیے سے وکیل لگ رہا تھا بھڑک گیا، بولا میں کیوں آگے جاؤں وہ بعد میں آئیں گے وہ آگے جائیں گے، اس تکرار کے دوران انارکلی سٹیشن آ گیا تو دیکھا سکول یونیفارم پہنے دو درجن سے زائد بچے چار قطاریں بنائے کھڑے ہیں، بچوں نے داخل ہوتے ہی اسلام علیکم کہا اور بالکل میکانیکی طریقے سے دو طرفہ سیٹوں پر بیٹھنے لگے۔

آخر میں ٹیچر داخل ہوئی اور ٹرین چل پڑی۔ ٹیچر نے فوراً شیٹ سے بچوں کی حاضری لگائی اور جب دیکھا کہ 4 بچے کھڑے ہیں اور وہ خبطی بابا بیٹھا ہے تو ایک دم خاموش ہو گئی سیکیورٹی افسر سمجھ گیا اس نے فوراً پھر سے درخواست کی تو بابا زور سے چلایا کہ انہوں نے ٹرپ لانا ہے تو سب سے پہلے والے سٹیشن پر بچوں کو لے کر جائیں اگلے سٹیشن پر سب کو اتاریں میں تو نہیں آگے جاؤں گا، ٹیچر نے چپ کر کے اپنے ساتھ بچوں کو ایڈجسٹ کیا اور کلاس شروع ہو گئی۔ بچوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، ۔ مسکراہٹیں قہقہے رونق ایسی تھی کہ لگ رہا تھا ٹرین نہیں بلکہ بچے دوڑے جا رہے ہیں اور یہ بچے ٹرین کو کہیں دور چھوڑ کر خود آگے نکل جائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد ٹیچر بچوں سے مخاطب ہوئی۔

Dear students, be attentive please

آپ نے ٹرین پر بیٹھنے سے پہلے کا پروسیجر سمجھ لیا، اب ہم آگے سیکھتے ہیں۔ ابھی ٹیچر یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ خبطی بابا زور سے چلایا۔

بی بی آپ یہاں اتریں یہ کلاس روم نہیں ہے ٹرین ہے۔ آپ نے عجیب مذاق بنایا ہے۔ چپ کر کے بیٹھیں۔ ہمیں کیوں اٹھا رہی تھی تم۔ یہ کہہ کر بابا باقی تمام لوگوں کو اپنے پاس بلانے لگا اور کہنے لگا آؤ یار تم بھی، تم لوگ بھی یہاں بیٹھو میں دیکھتا ہوں کیسے اٹھاتے ہیں آپ سب کو یہ سیکیورٹی والے۔ اس کے بعد ثرین میں عجیب سی افراتفری مچ گئی، شور بڑھ گیا۔ تماش بینی مزاج والی قوم کو تماشا چاہیے تھا بس ہو گیا شروع۔ یہ دیکھ کر سب بچے سہم گئے۔ کوئی ٹیچر کی ٹانگ سے چپک گیا تو کوئی اس کے ہاتھ اور بازو پکڑ کر رہ گیا۔ ٹیچر بیچاری روہانسی ہو کر نم آنکھوں کے ساتھ چپ کر کے بیٹھ گئی۔ شاید وہ اس صدمے سی ہی نہیں نکل پا رہی ہو گی کہ کیسے اس کے بچوں کے سامنے اس کی توہین ہو چکی تھی۔

قریبا 2 منٹ کے بعد خبطی وکیل کے حلیے والا بابا پھر بولا، بی بی تم نے اترنا کہاں ہے؟ تو اب کی بار ٹیچر نے نہایت نرم لہجے میں کہا انکل آپ کو اس سے کیا، کہیں تو ہم نے اترنا ہو گا۔ یہ سن کر خبطی بابا بولا، میں نے ایسے ہی پوچھا ہے تو ٹیچر بولی آپ نے آگے نہیں جانا نا جائیں لیکن پلیز چپ کر کے بیٹھیں ماحول نا خراب کریں بچوں کا ٹرپ اور کلاس نا خراب کریں۔

اب کی بار مجھ سے نا رہا گیا۔ میں دوسری بوگی سے آیا اور اس خبطی کو نہایت دھیمے لہجے میں بولا کہ سر آپ آگے تشریف لائیں میں آپ کو سیٹ پر بٹھاؤں گا لیکن آپ پلیز ماحول نا خراب کریں۔ لیکن انکل بابا ٹس سے مس نا ہوا۔ پھر میں نے کہا کہ چلیں آپ نا آئیں لیکن بچوں کی کلاس ہونے دیں آپ بھی انجوائے کریں گے آپ کے پوتے پوتیوں جتنے ہیں ٹیچر آپ کی بیٹی جیسی ہیں اچانک بابا بولا تمہیں کیا تکلیف ہے تم مامے لگتے ہو؟

دوستو، میں جو چپ کر کے نہایت صبر سے ٹیچر اور بچوں کی بے چارگی کا مشاہدہ کر رہا تھا، اب میری بس ہو گئی تو پھر یہاں سے کہانی کا نیا رخ شروع ہو گیا۔

تب میں نے بابے کے کان میں انتہائی آہستگی سے کہا اتنا آہستہ کہ بچے نا سن سکیں۔ میں نے کہا،

تکلیف مجھے تو نہیں ہے لیکن تمہارے گھر والوں کو ضرور ہے جو تم جیسے جانور کو برداشت کر رہے ہیں اور اگر تم اگلے سٹیشن پر نا اترے تو ایسی جگہ بازو رکھوں گا کہ پھر تکلیف تو تمہیں ہو گی لیکن کسی کو بتانے کے قابل بھی نہیں رہو گے۔

یقین کیجئے وہی بابا جو ایک خاتون اور بچوں کو دیکھ کر کسی بچھو کی طرح اٹھ اٹھ کر پڑ رہا تھا ایسے خاموش ہوا کہ جیسے گونگا اور بہرا ہو۔ اسے پتہ نہیں کہاں اترنا تھا لیکن میرے بات کرتے کرتے جو سٹیشن آیا اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ چپ کر کے بیگ اٹھایا اور نیوے نیوے ہو کر نکل گیا۔

دو اسٹیشنز کے بعد آخری سٹاپ آ گیا تو اسی دوران میں بچے اور سٹاف دوسری ٹرین میں اپنی کلاس اور ٹرپ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

ایسے بابے آپ کو ہر جگہ ہر گلی محلے خاندان فنکشنز میں نظر آئیں گے جو اپنی بڑی عمر کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی جھوٹی انا کو تسکین پہنچائیں گے۔ آپ نے بس ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی ہے کہ بڑے ہونے اور سفید بال ہونے کا مطلب ہرگز عقلمند ہونا نہیں ہے، کیونکہ بیوقوف نفسیاتی مریض اور پاگل بھی بڑے اور بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کے بال بھی سفید ہوتے ہیں، ہاں ان سے نمٹنا کیسے ہیں یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

نوٹ: اس ساری افراتفری، ہنگامے اور الجھن کو ایک سب انسپیکٹر اور اس کے ساتھ کھڑا ایک کانسٹیبل دونوں بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے رہے لیکن وہ ایسے لاتعلق تھے کہ جیسے ابھی ابھی مریخ سے زمین پر گرے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون، کیا، کب اور کیسے ہے اور انہوں نے انسان دیکھے ہی پہلی بار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments