پوٹھوہار، خطۂ دل ربا


ڈاکٹر شاہد صدیقی سے میری آشنائی دنیا اخبار کے ذریعے ہوئی ہے۔ اللہ نے انھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ان کا خاصہ ہے۔ یہ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ یہ ماہر تعلیم بھی ہیں اور ماہر لسانیات بھی۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور بہترین منتظم بھی۔ تخلیق کار بھی ہیں اور اسپیکر بھی۔ اس سے زیادہ یہ کہ ان کا شمار پاکستان کے صف اول کے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔

انھیں زبان و بیان پر خاص دسترس حاصل ہے۔ بالخصوص فقروں کی بندش اور شیریں گفتاری میں ید طولیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ مگر اثر انگیز ہے۔ منفرد لب و لہجہ، شائستہ و شگفتہ زبان، الفاظ کی روانی اور سلاست بیانی قاری کو اپنی حصار میں لے لیتی ہے۔ ایک مدت سے میں ان کے کالموں کا اسیر ہوں۔ مجھے ان کے کالم کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ دنیا اخبار میں چھپنے والے ان کے کالموں کو موبائل فون میں خاصی تعداد میں جمع کر کے موبائل کو منی لائبریری بنا دیا ہے۔ جن سے خوب فائدہ اٹھاتا رہتا ہوں۔

حال ہی میں ان کی معرکتہ الآرا تصنیف ”پوٹھوہار خطۂ دل ربا“ منصہ شہود پر آئی ہے۔ یہ اعلیٰ پائے کی تخلیق بھی ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ موضوعات کی کثرت اور بوقلمونی اس تصنیف کی پہچان ہے۔ متفرق موضوعات کی رنگا رنگی اس ادبی نسخے کی منفرد ہونے کی دلیل ہے۔ اس شاہکار تخلیق میں ان کی راولپنڈی کی گلی کوچوں، عید کی تہواروں، بزرگوں کی محفلوں، یار لوگوں کی صحبتوں، بچپن کی شرارتوں، جوانی کی شوخیوں، کھیتوں کھلیانوں اور مرغزار وادیوں میں بیتے لمحات کا تذکرہ ملتا ہے۔

اس دور کا معاشرت، رسم و رواج، شادی بیاہ اور گاؤں کی سادہ مگر حسین روایات مجسم ہو کر نظروں کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ اس میں بادشاہوں کے قصے، کہانیاں، پرانے قلعے، محلات اور ان کی طرز زندگی کا خوب پتہ ملتا ہے۔ اس میں بالی ووڈ اور لالی ووڈ کے فلمی ستاروں کا احوال شان دار طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ سنیما گھروں کے عروج و زوال کا ذکر بھی ملتا ہے۔

اگر آپ اس تصنیف کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں گے تو تخیل کی دنیا آپ کو ستر کی دہائی میں لے جائے گی ’جہاں آپ پوٹھوہار کی گلیوں میں سانس لیتے ہوئے محسوس کریں گے۔ اس میں ماضی کے ایسے دلفریب واقعات لکھے گئے ہیں جو اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ یقیناً صدیقی صاحب پوٹھوہار کے کسی مقام پر کھڑے ہو کر سوچتے ہوں گے کہ وہ گاؤں بھی اجنبی لگتا ہے جس کی مٹی میں کھیل کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ وہ کچے مکانات، کچی گلیاں جو اب بازاروں اور مارکیٹوں میں تبدیل ہو کر اجنبیت کا احساس دلاتی ہیں‘ جو کبھی ہاتھ کی انگلیوں کی طرح یاد تھیں۔ اب پلٹ کر ماضی میں جائیں تو کیسے جائیں

اس ادبی نسخے کو خالصتاً یادداشتوں کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے ’مگر یہ سوانح حیات بھی ہے، سفر نامہ بھی اور مکمل تاریخ بھی۔ یہ قدرتی رعنائیوں کا متلاشی ایک سیاح کی کہانی بھی ہے۔ یہ کتاب سرورق سے لے کر ورق ورق تک خوشبو میں لپٹی یادوں کی حسین مرقع ہے۔ الغرض ڈاکٹر صاحب نے کمال مہارت سے کتاب کا لفظ لفظ موتیوں سے سجایا ہے۔ جس کے لیے وہ صد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ ذوق مطالعہ کی حلاوت سے سرشار افراد بالخصوص تحقیق کے طلبہ کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد ادبی حلقوں میں خاص مقبول ہوئی ہے۔ اس پر بڑے بڑے قدآور قلم کاروں نے تبصرے قلم بند کر کے کتاب کے معیاری ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ امید واثق ہے ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی و تخلیقی سفر جاری رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے لیے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments