ذو صنفی انسان


1871 میں برطانوی حکومت نے قبائل کے مجرمانہ قانون کے ذریعے مختلف قبائل اور برادریوں کے ساتھ ساتھ ذو صنفی (ٹرانس جینڈر) کمیونٹی کو بھی جرائم پیشہ گروہ میں ڈال کر برصغیر ( پاک و ہندو بنگلہ) میں ٹرانس کمیونٹی کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی ناقابل معافی کوششوں کا حکومتی سطح پر باقاعدہ آغاز کیا تھا۔

2018 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ذو صنفی انسانوں کے آئینی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے ایک قانون پاس کر کے اس کمیونٹی کے دکھوں کا مداوا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تقسیم تین سطحوں (بائیولوجیکل، نفسیاتی اور رویوں کی بنیاد پر) کی گئی ہے۔ حکومتی اور قانونی سطح پر پہلی بار اس کمیونٹی کے لوگوں کے لئے جائیداد اور وراثت کے حقوق، تعلیم اور ملازمت کے حقوق، ووٹ ڈالنے اور اجتماع کے حقوق کے ساتھ ساتھ تمام آئینی بنیادی حقوق کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور انہیں باعزت طور پر اپنی زندگیاں اپنی خود سمجھی جانے والی شناخت کے ساتھ گزارنے کی اجازت دی گئی ہے۔

صنفی خود مختاری کا تصور صرف اور صرف ذو صنفی اشخاص کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی رجحانات کو سمجھتے ہوئے خود فیصلہ کریں کہ ان کی جنس کی نوعیت کیا ہے۔ ان کا جسم کیسا ہے، وہ کیسے محسوس کرتے ہیں اور لوگوں میں وہ اپنا آپ کیسے اظہار کرتے ہیں۔ صنفی شناخت سے مراد کسی شخص کے جنس کے بارے میں گہرائی سے محسوس کیا جانے والا، اندرونی اور انفرادی تجربہ ہے، جو پیدائش کے وقت فرد کی جسمانی شکل و صورت یا طے کردہ جنس سے مطابقت بھی رکھ سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ہم نے تو ویسے بھی مختلف اوصاف کو مردانہ اور زنانہ خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔

جنسی رجحان، صنفی شناخت، صنفی اظہار اور جنسی خصوصیات سے متعلقہ انسانی حقوق کے موجودہ تصورات دور جدید کی پیداوار ہیں۔ جنس ایک بائیولوجیکل تصور ہے جبکہ صنف (جینڈر) ایک سماجی تصور ہے۔ صنف کا تعین ذہنی اور جسمانی بھی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق صنف سے مراد عورتوں، مردوں، لڑکیوں اور لڑکوں کی وہ خصوصیات، رویے اور کردار ہیں جو سماجی طور پر تشکیل دیے گئے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ صنف چونکہ ایک سماجی تصور ہے اس لیے یہ ہر معاشرے میں مختلف ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدل سکتا ہے۔

سینٹ آف پاکستان کی فنکشنل کمیٹی آف ہیومن رائٹس کی رپورٹ نمبر 16 کے مطابق ٹرانس جینڈر پرسنز کی خود سے سمجھی جانے والی شناخت کے معاملے پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی کہ آیا میڈیکل بورڈ ٹرانس جینڈر اشخاص کی شناخت کرے گا یا ٹرانس جینڈر لوگوں کو اپنی شناخت خود کرنے کا حق دیا جائے۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی ٹرانس جینڈر برادری کے نمائندوں اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد ٹرانس جینڈر لوگوں کو اپنی شناخت خود کرنے کے حق کی حمایت کی تھی۔

لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم نما ہجوم کی سوچ دو متضاد دھاروں میں بہتی ہے۔ ہم یا تو سفید مانتے ہیں یا کالا یا پھر دونوں رنگوں کا ہی سرے سے انکار کر دیتے ہیں۔ سفید اور کالے کے بیچوں بیچ ہم جانتے بوجھتے زندگی کے تمام رنگوں سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کوئی ہمیں دکھائے بھی تو ہم نہ صرف دیکھنے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ دکھانے والے کی آنکھیں ہی نکال دیتے ہیں۔ کوئی سنائے تو ہم اپنے کانوں پر نہ صرف ہاتھ رکھ لیتے ہیں بلکہ سنانے والے کی زبان تک کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ کوئی سمجھانے کی کوشش بھی کرے تو ہم اس کا بھیجے کا بھرکس نکال کر آگ لگا دیتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ صمٌۢ بکمٌ عمىٌی مانند کوئی جمگھٹا دیکھنا ہو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسیوں سے بہتر کوئی قوم شاید اس کرہ ارض پر نہ بستی ہو گی۔ الامان۔ الحفیظ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).