پاکستان کے اعلی نظام تعلیم کے بارے میں نوجوان نسل کی رائے


قوموں کے مستقبل کا دار و مدار اس کی نوجوان نسل سے وابستہ ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آج کے نوجوانوں نے کل کو ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ہوتی ہے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی کا بڑا تناسب نوجوانوں پر مشتمل ہے اور پاکستانی حکومتیں نوجوان نسل کی تعلیم کے لیے اپنی تئیں کوششیں کرتی ہیں کہ نوجوان نسل کو ایسی تعلیم دی جائے کہ یہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں بلکہ اس قابل ہوں کہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ دوسری طرف اس بات کی اپنی اہمیت ہے کہ نوجوان نسل ہمارے ملک کی اعلی تعلیم کے نظام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

چند روز قبل پلڈاٹ نے پروگرام ”نوجوانوں کی آواز“ کے تحت پاکستان کے نوجوانوں کی پارلیمنٹ کے ارکان سے پاکستان کے اعلی تعلیم کے نظام کے متعلق رائے لینے کے لیے ایک سروے منعقد کروایا اس سروے میں 429 نوجوان ارکان نے حصہ لیا۔ جبکہ سروے میں آٹھ سوالات پوچھے گئے۔ ان سوالات پر ان کی رائے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور ساتھ ہی بہتری کے لیے ممکنہ حل بھی تجویز کرتی ہے۔

اس سروے کا پہلا سوال اعلی نظام تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے طریقہ کار سے متعلق ہے۔ جس میں ممکنہ جوابات بھی تجویز کیے گئے تھے۔ اس پر 65 فیصد نوجوانوں کا خیال تھا کہ اعلی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا معیار اور سہولیات مہیا کر کے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے جبکہ 26 فیصد کا خیال تھا کہ موجود اساتذہ کی تربیت کروا کے اعلی تعلیم کے نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے

دوسرا سوال اعلی تعلیم کے اخراجات کے متعلق تھا۔ 55 فیصد نوجوانوں کا خیال تھا کہ اعلی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا نوجوان نسل کے لئے ممکن نہیں جبکہ 39 فیصد کی رائے میں یہ اخراجات برداشت کرنا کافی حد تک مشکل ہیں۔ صرف 14 فیصد نے اس سے اختلاف کیا یعنی ان کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے اخراجات نوجوان نسل کے لئے قابل برداشت ہیں۔

تیسرا سوال جن پر ان کی رائے لی گئی ہے وہ یہ تھا کہ دو ہزار بیس میں کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کا اعلی تعلیم کا نظام متاثر ہوا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اعلی تعلیم کے نظام کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اس پر 29 فیصد کی رائے تھی کہ ہمارے نظام تعلیم میں کوئی متبادل موجود نہ ہے۔ 25 فیصد کی رائے میں پڑھائی کا نقصان اور اعلی تعلیم کے معیار کا ایک جیسا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

چوتھا سوال تھا کہ اعلی تعلیم کے کس شعبے کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہے۔ ممکنہ تجویز کردہ حل، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت کا استعمال اور پالیسیوں کو بہتر کرنا وغیرہ شامل تھا۔ اس پر ایک 34 فیصد کی رائے تھی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے اعلی تعلیم کے نظام کو بہتر کیا جا سکے جب کہ 18 فیصد کی رائے تھی کہ پالیسیوں کو بہتر کرنے کی ضرورت۔

پانچواں سوال تھا کہ اعلی تعلیم کے ادارے طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 37 فیصد کی رائے تھی کہ اگر طلبہ یونینز کو بحال کر دیا جائے تو یہ ممکن ہے جب کہ 32 فیصد کا خیال تھا کہ طلبہ میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے تربیت یافتہ کوچز مقرر کیے جائیں۔

چھٹا سوال اٹھا کہ اعلی تعلیم کے ادارے ایسی افرادی قوت مہیا کر رہے ہیں جو کہ مارکیٹ کے لیے ضروری مہارتوں سے لیس ہیں اس سے 66 فیصد نوجوانوں نے اختلاف کیا جبکہ 30 فیصد نے اتفاق کیا۔

ساتویں سوال میں پوچھا گیا تھا کہ اعلی تعلیمی اداروں میں انتظامی امور میں طلباء سے رائے لینے کے لیے بہترین طریقہ کار کیا ہے۔ 35 فیصد نے کہا کہ طلبہ یونینز اس کا بہترین حل ہیں۔ جبکہ 32 فیصد نے کہا کہ طلبہ سے فیڈ بیک لینے کے لئے سیشن منعقد کیے جائیں۔

آٹھواں اور آخری سوال طلبہ کے بیرون ملک جا کر اعلی تعلیم حاصل کرنے سے متعلق تھا۔ جس پر 52 فیصد کے خیال میں پاکستان کے معاشی حالات دباؤ کا شکار ہیں اور یہاں ان کی اکیڈمک اور پروفیشنل تربیت کے مواقع محدود ہیں۔ جبکہ 21 فیصد کی رائے میں بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے کا مقصد وہاں پر بہتر معاشی حالات کے لئے رہائش پذیر ہونا ہے۔

اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کی رائے میں ہمارا اعلی تعلیم کا نظام مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے لئے درکار مہارتوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ نوجوان نسل کی رائے میں ہمارے پاس متبادل نظام تعلیم بھی میسر نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذرائع کو استعمال میں لا کر موجودہ اعلی تعلیم کے نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

یہ سروے موجودہ نظام کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ رپورٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھجوائی جائے اور مستقبل میں اعلی تعلیم کی پالیسیاں بناتے وقت ان نقاط کو سامنے رکھا جائے۔ اور ساتھ ہی اعلی تعلیم کے اداروں کو بھیجا جائے تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریقہ کار کو بہتر کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments