لیڈر خواب بیچتے ہیں اور پی ڈی ایم کے لیڈر بے خوابی کا شکار ہیں


معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی نہ کوئی نعرہ موجودہ ہوتا ہے، خواہ وہ پرستانی ہی کیوں نہ ہو جس کا زمین پر عمل درآمد ناممکن ہو۔ یعنی کرپشن سے نجات یا حقیقی آزادی وغیرہ۔

پیپلز پارٹی، نون لیگ اور اے این پی کے پاس کیا نعرہ ہے؟ لے دے کر نون نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تلاش کیا تھا اور اسے خود اپنے قدموں تلے روند دیا۔ اب تو ایک ہی انتخابی نعرہ ہے کہ دیکھو تم ہمیں ووٹ نہیں دو گے تو کپتان آ جائے گا اور تمہیں کھا جائے گا۔

کیا نعروں کے بغیر مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ حکومتی کارکردگی خراب ہی نہیں بلکہ عوام کی زندگی خراب کرنے والی ہو؟ چلو روٹی نہ سہی روٹی کا خواب تو دکھا دیں۔ لیڈر خواب بیچتے ہیں اور پی ڈی ایم کے لیڈر بے خوابی کا شکار ہیں۔

نوجوان کس وجہ سے پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرف متوجہ ہوں؟ کیا مفت میں لیپ ٹاپ بانٹنے سے اسے نوجوان ووٹ مل جاتا ہے؟ وہ اسی لیپ ٹاپ پر کپتان کے سپاہی بن جاتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا حال کرتے ہیں، وہ سب دیکھ ہی رہے ہیں۔

خانہ دار خواتین کا بڑا مسئلہ گھر کی تعمیر، سودا سلف اور بجلی کا بل ہے۔ کیا اس کی بنیاد پر ان سے کوئی وعدہ بار بار کیا جا رہا ہے؟ الٹا تحریک انصاف کی آسان شرائط پر گھر کے حصول کے لیے قرضے کی سکیم بند کر دی گئی ہے، بجلی کے بل کئی گنا بڑھا دیے گئے ہیں اور کلو ٹماٹر خریدنے والی سگھڑ بیبیاں ایک ٹماٹر سے ہفتہ چلاتی ہیں۔

بندوں کے لیے ان کے پاس کیا ہے؟ پٹرول مہنگا کر کے گھر سے باہر نکلنا ناممکن کر دیا ہے اور گھر میں بیٹھ کر مسلسل مہنگائی کی پریشانیاں سننا ان کا نصیب ٹھہرا ہے۔

تو جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے پاس نہ نوجوان کے لیے کوئی نعرہ ہے، نہ خواتین کے لیے کوئی خواب ہے اور نہ بندوں کے لیے سکون کی نوید، تو ان کا ووٹر ٹوٹے گا نہیں تو کیا ان کی پوجا کرے گا؟

اوپر سے وہ ابھی تک پرنٹ میڈیا کے زمانے میں زندہ ہیں۔ یہ جماعتیں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب اخباروں کی ریڈر شپ ختم ہو چکی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز سے لوگ بیزار ہو چکے ہیں، اب وہ سوشل میڈیا ہی کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر اچھی سرمایہ کاری کی ہے، اس کی باقاعدہ ٹیمیں موجود ہیں۔ دوسری جماعتیں قومی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ پر تو چار چھے کروڑ لگا دیتی ہیں، مگر سوشل میڈیا پر مفتا مارنے کے چکر میں رہتی ہیں کہ ہمارے کارکن خود ہی مہم چلاتے رہیں گے۔ نہ تو کوئی مہم آرگنائز کرنے والا ہوتا ہے اور نہ سمت دینے والا۔

عمران خان نے اپنے پہلے دو سال تو نہایت کامیابی سے اپنی ہر ناکامی کا ملبہ محض سوشل میڈیا کے زور پر نون لیگ پر ڈالے رکھا کہ وہ صورت حال اتنا بگاڑ گئی تھی کہ یہ سب کچھ بھگتنا پڑے گا۔ اس کے بعد اگلے دو سال وہ قوم کو کسی نہ کسی جگہ مصروف رکھتی آئی۔

کیا پی ڈی ایم کی حکومت نے پٹرول یا بجلی کی قیمت بڑھاتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا؟ کیا اس کے خلاف کوئی منظم مہم سوشل میڈیا پر چلائی تھی؟ اور کمال یہ کہ ابھی تک اسے سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک نہیں ہوا۔ کھائیں جوتے اب۔ خیر انہیں محسوس نہیں ہوتا ہو گا، پچھلے دس برس میں عادت ہو جانی چاہیے۔

پاکستانیوں کو عموماً اور پنجابیوں کو خصوصاً بڑھک باز لیڈر پسند آتے ہیں۔ وہ کارکردگی منشور وغیرہ نہیں دیکھتے۔ پیپلز پارٹی نے زرداری دور میں دشمن داری چھوڑ کر صلح کل کا مسلک اختیار کیا تو پنجابی ووٹر بھاگ گیا۔ جو جیالا نواز شریف کو کسی صورت ووٹ دینے کو راضی نہیں وہ پی ڈی ایم کی وجہ سے نواز کو ووٹ دینے کی بجائے نواز کو للکارنے والے عمران کا ساتھ دینے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ پیپلز پارٹی تو مکمل درویش ہو چکی ہے۔ چلو نواز شریف کو نہ سہی، عمران خان کو ہی للکار دیا کرے۔ بلاول سے کچھ امید تھی مگر ادھر بھی زرداری پالیسی ہی چل رہی ہے۔ کارکن درویشی سے چارج نہیں ہوتا، اسے کرنٹ درکار ہوتا ہے۔

نواز شریف نے ووٹ کو عزت دینا بند کی تو ان کی مقبولیت کم ہونے لگی۔ اب وہ سکون سے لندن بیٹھے ہیں۔ صبح پرہیزی ناشتہ کرتے ہیں۔ دوپہر کو گھر کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں بدپرہیزی میں مبتلا کرنے والے نعرے سنتے ہیں۔ شام کی چائے پی کر سیر کو نکل جاتے ہیں۔ اور رات کو کھانا کھا کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ جیسے وہ سو رہے ہیں ویسے ہی ان کا نصیبا بھی سو رہا ہے۔

اس وقت بڑھک صرف کپتان لگا رہا ہے اور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون کو مقبول ہونا ہے تو بکرے بلانے پڑیں گے۔ کسی بھی حقیقی یا خیالی دشمن سے لڑنا پڑے گا۔ اوئے ٹوٹے کر دیاں گا (ٹکڑے کر دوں گا) کی پکار پبلک ڈیمانڈ ہے۔

اس ضمنی انتخاب میں کپتان کی جیت اور نون کی عبرتناک شکست کے بعد بڑے میاں صاحب کی واپسی تو پکی ہے ہی، چھوٹے میاں صاحب کی واپسی بھی پکی ہو گئی۔ انہوں نے بڑی عقل مندی دکھائی کہ اپنے ٹویٹر ہینڈل پر سی ایم یعنی چیف منسٹر برقرار رکھا۔ دیکھا جائے تو بڑے میاں صاحب کو ایک ہی فائدہ ہوا، انہوں نے اپنے بھائی کو اپنی اہمیت بھی جتا دی اور مریم کی جانشینی بھی پکی کر دی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments