دنیا ہر بندر کو ہنومان نہیں مانتی


کل ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد تحریک انصاف کے حامی پھولے نہیں سما رہے، مبارک بادیں ہیں، بھنگڑے ہیں نعرے ہیں، گانے ہیں، مٹھائیاں ہیں۔ خان صاحب نے معرکہ مار لیا۔ چھ نشستوں پر کامیاب ہو کے اپنی عوامی مقبولیت پر مہر ثبت کروا لی۔ بہت اچھے! بہت خوب!

بچپن میں ایک حکایت سنی تھی کہ ایک نامی گرامی پہلوان خود ستائشی کے مرض میں مبتلا تھا، جہاں بیٹھتا ہمہ وقت اپنی کشتیوں کے قصے سناتا کہ فلاں کو میں نے ایسے پچھاڑا، دوسرے کو یوں دھول چٹائی، کسی کو اس داؤ سے چت کیا۔ ہر محفل میں یہی حال تھا۔ لوگ باگ ان گنت بار وہی اپنی تعریفوں سے بھری کہانیاں سن کے پک گئے تھے۔ ایک بار ایسی ہی کسی مجلس میں پہلوان کو آتا دیکھ کر کوئی دل جلے بڑبڑایا، لو اب پھر ان کے قصیدے خود انہی کی زبانی سننے پڑیں گے، محفل میں موجود ایک جید عالم نے یہ سن لیا۔ پہلے بھی کئی اس بابت شکوہ کر چکے تھے۔

خیر جناب، بزعم خود رستم زماں پہلوان آ کے عالم صاحب کے قریب ہی تشریف فرما ہوئے۔ بعد سلام دعا، گفتگو شروع ہوئی اور حسب توقع پہلوان جی کی طاقت، ہنر اور فتح کے قصے ہونے لگے، جن کے راوی ظاہر ہے کہ وہ خود تھے۔

عالم نے دو قصے بھگتائے اور بغور مجمعے کا جائزہ لیا۔ حاضرین محفل بے طرح اوب رہے تھے، بات کاٹتے کو بد تہذیب کہلاتے اور پہلوان جی، الف لیلی کی شہر زاد بنے، ایک ہی قصے سے دوسرے کا سرا پکڑ رہے تھے کہ بات بدلنے کا موقع ناممکن تھا۔

جب ایک قصہ اختتام کو تھا تو عالم نے تاک کے بات شروع کی، بھئی کیا کہنے آپ کے، ہمیشہ سنا، وہ آپ ہی ہیں جن کے سامنے کوئی ایک دور کے بعد ٹک نہ پایا۔

پہلوان اپنی تعریف پر بے انتہا خوش ہوا اور مسکراتے ہوئے کہا، آپ نے سو فیصد سچ سنا۔ عالم نے سوال کیا، تو جو آپ سے ہارے وہ یقیناً آپ کے برابر تو نہ ہوں گے؟

پہلوان تکبر سے، اجی، سوال ہی نہیں۔ میرے برابر کیا میری ایک پسلی کے برابر بھی نہیں تھے۔ عالم نے مجمعے کو دیکھا اور ان کی رائے لیتے ہوئے کہا، یعنی آپ اپنے سے کہیں کمزور کو ہرا کے اب ہم سے داد بھی چاہتے ہیں؟

مجمع پھڑک اٹھا اور مسکراہٹ دباتے کئی نے عالم صاحب کی بات کی تائید بھی کی۔ پہلوان کچھ جز بز ہوا اور بولا، نہیں، سب ایسے گئے گزرے بھی نہیں تھے، کچھ تو میرے آدھے تھے۔

عالم نے پھر نکتہ دیا، یعنی یا آپ اپنے سے کمزور ترین سے لڑے یا بہت ہوا تو زور میں اپنے آدھے کے مقابل رہے۔ بھئی ان کو ہرانا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اب پہلوان کی بولتی بند ہو گئی

عالم نے مسکراتے ہوئے کہا، بھئی فاتح وہ ہوتا ہے جو اپنے ٹکر والے یا اپنے سے بہتر کو پچھاڑے، آپ نے تمام مقابلے ان سے جیتے جو آپ کے برابر تھے ہی نہیں۔ اب کمزور کو ہرانے پر فخر کرنا کم ظرفی ہے۔ آپ جب اپنے سے طاقتور کو مات دیں تو مجھے اس مقابلے کا حال سنائیے گا۔

الغرض، اس کے بعد پہلوان کو افاقہ ہوا اور جنتا نے سکھ کا سانس لیا۔

کچھ اس پہلوان سی ادا ہمارے خان کی بھی ہے۔ اللہ کے بعد تمام تعریفیں وہ صرف اپنی کرنا پسند فرماتے ہیں۔ برطرفی کے بعد ابتدا اسلام آباد ڈی چوک پے دھرنے کی ناکام کوشش اور درختوں کو آگ لگانے سے ہوئی پھر خان صاحب نے یہاں وہاں جلسوں کی بھرمار کر دی۔

مگر تقریر میں بیانیہ بار بار بدلا، پہلے اسٹیبلشمنٹ سے نیوٹرل ہونے کا گلا کیا پھر امریکی سازش قرار دیا، سائفر جیسا لفظ انہیں بھی رٹا دیا جو پوری اے بی سی ڈی بھی نہیں دہرا سکتے۔ بات نہ بنی تو کھلے بندوں موجودہ سالار اعظم کو نشانہ بنایا گیا کبھی ریٹائرڈ جغادری جمع ہوئے اور اس سانحے پر احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں کو اپنے جنازے کی تیاری کرو، جیسی الہامی خبر دی، ان کی خواتین نے جم جم کے نام لے کر نیوٹرل کو نستعلیق گالیوں سے نوازا۔ غرض ہر طرح کا ہلڑ مچانے پر بھی کچھ نہ ہوا۔

سیلاب آیا اور کروڑوں کا نقصان کرتا، جانیں لیتا، لاکھوں کو بے سرو سامان کھلے آسمان تلے چھوڑ گیا مگر خان کا سونامی نہ رکا۔ پختونخوا سرکار کے ہیلی کاپٹر کو ذاتی سواری سمجھ کر خان نے دور دراز تک جا جا کے عوام کو سمجھایا کہ سائفر آیا، سازش ہوئی، فرح اور بزدار کا بشری بی بی سے احترام کا رشتہ ہے باقی سب ثبوت جھوٹ ہیں۔

مگر آج کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں خان صاحب کامیاب رہے ہیں۔ ان چھ میں سے پانچ نشستیں انہیں ایک ماہ میں چھوڑنی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اگلے الیکشن میں تمام سیٹوں پر خان صاحب خود ہی لڑیں گے؟ کیونکہ اگر اس بار بھی کپتان خود نہ ہوتے تو شاید ان نشستوں پر جیتنا محال ہوتا۔ دو ہزار اٹھارہ کے مقابلے میں انہیں حلقوں میں تحریک انصاف کے ووٹ کم ہوئے ہیں۔ خان کے انتخاب لڑنے پر بھی ووٹ کا تناسب کم ہونا کوئی اچھی علامت نہیں جبکہ مقابلہ بھی اپنے سے کمزور پہلوان سے تھا خیر خان اور ان کے پرستاروں کو ایسے کسی تبصرے سے قطعاً فرق نہیں پڑتا، رات ان کی محفل میں رت جگا تھا۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ جب ملک شدید مالی و جانی نقصان سے جوج رہا ہے، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دباؤ ایک جانب، سی پیک، یوکرائن اور روس جنگ میں حمایت و خاموشی کے نتائج جیسے سنگین مسئلے دوسری جانب، ان تمام کے درمیان کمر توڑ مہنگائی سے پستی عوام اور ممکنہ غذائی قلت سے قحط کا خدشہ ایسے میں ہمارا کپتان ان تمام فکروں سے بے نیاز سیاسی میدان میں اپنی اننگ کھیل رہا ہے جس کے اصول بھی اس نے ازخود وضع کر لئے ہیں، پہلا اصول ؛ باقی سب غدار اور چور ہیں صرف میں اچھا ہوں۔ جس نے میرا ساتھ دیا وہ آخرت میں جنت پائے گا اور جس نے اس جہاد میں بلے پر ٹھپا نہ لگایا تو قبر میں منکر نکیر ہی اس کا ویزۂ جنت ریجیکٹ کر دیں گے۔ بات ختم۔

سب مان لیا مگر سوال اب بھی وہی ہیں، دو ہزار تئیس کے عام الیکشن میں خان کتنی نشستوں پر خود منتخب ہونا پسند فرمائیں گے؟ یا ضمنی انتخابات میں کامیاب ہو کر جگہ خالی کر کے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع کرنے کا شوق پورا ہو گیا؟

دوسرے، اگر ان چھ نشستوں پر خان کی جگہ کوئی اور ہوا تو کیا نتیجہ وہی ہو گا جو مہر بانو قریشی کے ساتھ ہوا؟

سوچیئے، اگلے انتخابات میں عارف علوی۔ علی زیدی۔ عمران اسماعیل۔ فیصل واڈا۔ عالمگیر خان کراچی سے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ سندھ کیا اس بار پنجاب بھی پیپلز پارٹی کی جانب پلٹ رہا ہے۔ مسلم لیگ نون ان چند مہینوں میں ہی بہت معاملات سیدھے کر چکی۔ ڈالر کو کچھ تو لگام ڈال ہی دی گئی ہے، کوشش جاری ہے کہ تیل، بجلی اور گیس کے نرخ بھی کسی حال قابو میں لائے جائیں۔ بالفرض یہ بھی ہو گیا تو کیا عثمان بزدار کی اعلی کارکردگی کی بنیاد پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہو سکیں گے؟

خلاصہ یہ ہے کہ لنکا کتنوں نے ہی مل کر ڈھائی ہو، دنیا بس ”جئے ہنومان“ کہتی ہے، ہر بندر کو ہنومان نہیں مانتی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments