ایمل ولی خان ہارے یا جیتے؟


اس سے قطع نظر کہ ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پر ایمل ولی خان جیت نہ سکے اور عمران خان ہارے نہیں لیکن اس جملے میں جو چھپی ہوئی بات ہے وہ بالکل الٹ ہے اگر سمجھ میں آ جائے۔

ہمارے ہاں یہ ایک سیاسی روایت یا پارٹی پالیٹکس کی ریت رہی ہے کہ ضمنی الیکشن میں حکمران پارٹی ہی جیتتی آئی ہے۔ اور اس بار بھی وہی ریت یا روایت برقرار رہی۔

اس بار سیاسی جانشینی کے دو سپوتوں نے اپنے اپنے سیاسی کیرئیر کی قسمت آزمائی کی اور دونوں نے بالترتیب اپنی اپنی عمروں سے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے یعنی مہربانوں قریشی اور ایمل ولی خان۔ لیکن میرا موضوع صرف ایمل ولی خان ہے تو میں ان تک محدود رہوں گا۔

پہلے میں یہ واضح کردوں کہ میں ذاتی طور پر ایمل ولی خان کی اس سیاسی ضد سے قطعاً متفق نہیں تھا کہ اگر حکومت نے ضمنی انتخابات ملتوی کر دیے تو وہ حکومتی اتحاد سے نکل جائیں گے اور نہ اتنا خوش فہم ہوں کہ حکومت نے کرائے ہی الیکشن ایمل ولی کی سیاسی دھمکی کے نتیجے میں ہیں۔

حکومت نے یہ الیکشن ہر حال میں کرانے تھے لیکن سوات میں لوگوں کے احتجاج اور بعد میں مردان، دیر اور چارسدہ میں لوگوں کے باہر نکلنے نے ایمل ولی خان کے سیاسی عزم میں ایک آگے بڑھنے کی کسک پیدا کی اور وہ اپنے تئیں یا پھر ان کے قریبی خوش بینوں نے بھی ان کو قدم بڑھاؤ ایمل ولی خان ہم تمھارے ساتھ ہیں کے جذباتی اعتماد نے آگے دھکیلا۔ لیکن اس سیاسی مہم یا جذباتی اعتماد میں صرف اور صرف اے این پی کے کارکن شامل تھے دیگر بارہ تیرہ پارٹیوں کے گنے چنے لوگوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا ورنہ یقیناً ایمل ولی خان اڑسٹھ ہزار کا ہندسہ پار کر جاتے بلکہ اسی ہزار سے بھی آگے بڑھ سکتے تھے۔

کیونکہ یہی ہندسہ بڑے خان صاحب سے لے کر چھوٹے ایمل ولی خان صاحب تک یکساں نہیں رہا ہے۔ کیونکہ اب کی بار وہ لوگ بھی ان کے ہمراہ تھے جن کے خلاف یہ ہندسہ ماضی میں بھی ٹچ کیا گیا تھا۔ ورنہ ثمر بلور، حاجی غلام احمد بلور کے نہ جیتنے کے بعد یہ بیان جاری نہیں کرتی کہ ہم اے این پی کے کارکنوں کا شکریہ اداکرتے ہیں اور اے این پی کے کارکن ہمارے ایک خاندان جیسے ہیں۔ شکریہ تو پھر ان کا بھی بنتا تھا جن کا ساتھ دینا نظر آ رہا تھا لیکن جب کسی کا ساتھ ہی نظر نہ آئے بھلا ان کا شکریہ کس منہ اور کس زبان سے۔

ایمل ولی خان سیٹ تو نہ جیت سکے لیکن لوگوں کے دلوں کو جیت سکے ورنہ اڑسٹھ ہزار سے زائد ووٹ کوئی کسی کو خیرات میں نہیں دیتے۔

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایمل ولی خان اور عمران خان کے درمیان مقابلہ سیاسی شعور اور سیاسی جنون کا تھا اور یہ تاریخ ہے کہ سیاسی شعور کے مقابلے میں سیاسی جنون اکثر جیت چکا ہے اور اب کی بار بھی جیت گیا۔

ایمل ولی خان اور عمران خان کے درمیان عمروں کے علاوہ شخصیات کا بھی فرق تھا ایک سیاسی لیگیسی کا ابھرتا ستارہ اور دوسرے غیر سیاسی لیگیسی کا مٹتا استعارہ۔

لیکن آنے والے وقتوں میں ایمل ولی خان اس سیٹ کو جیتیں گے بلکہ شاید تب کی بار ان کے مد مقابل بھی ان ہی بارہ تیرہ ہمراہیوں میں سے کوئی ہو گا جو مستقبل کی پیش بندی کے طور پر متحرک نظر نہیں آئے۔

پھر بھی اب کی بار بھی مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments