لاہوتی: سندھ میں موسیقی کا لنگر بھی بٹتا ہے


ایک نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے درخت کے نیچے بیٹھے جہان پور کے شاعر انور سائیں کی اشعار گنگنا رہا تھا۔ اپنے گیت کے ذریعے وہ نوجوانوں میں تفرقہ بازی کو مٹانے کی کوشش میں مگن تھا اور گٹار کی دھن پہ امن اور شانتی کا پیغام دینے میں مشغول نظر آ رہا تھا۔

اشعار کچھ یوں تھے :
تمہیں اللہ کہوں
تمہیں بھگوان کہوں
تمہیں گیتا کہوں
تمہیں قرآن کہوں
یا گرو گوبند کا گیان کہوں

یہ نوجوان ’دی اسکیچز‘ میوزک گروپ کا لیڈ سنگر سیف سمیجو تھا۔ پچھلی ایک دہائی سے وہ اپنی صوفی لوک راک موسیقی کی وجہ سے نوجوان نسل میں مقبول ہیں۔ سیف کا سفر سندھ یونیورسٹی سے شروع ہوا اور اب یہ سفر دی اسکیچز کے نام سے ایک گروپ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ دی اسکیچز کے نام سے ان کا پہلا البم 2001 میں آیا جس کا نام ’دستکاری‘ ہے۔ لیکن یہ سفر دی اسکیچز پر رکا نہیں ہے۔ سیف نے اپنی اور دی اسکیچز کی مقبولیت کا درست استعمال کرتے ہوئے موسیقی کی پرورش کے لیے ’لاہوتی‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے بے شمار نوجوان موسیقار جڑے ہوئے ہیں، جو موسیقی کے مرکزی دھارے میں پہنچ رہے ہیں۔

لاہوتی نام سے زروع ہونے والا سازوں کا یہ جشن 2016 میں شروع ہوا۔ ہر سال اس جشن کو سیف سمیجو، ثنا خواجہ اور ان کی ٹیم موسیقی کے ساتھ مختلف پروگراموں کے ذریعے ایک مخصوص تھیم میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لاہوتی درحقیقت جدید اور مقامی موسیقی کا ملاپ ہے۔ لاہوتی کا مقصد مقامی فنکاروں کے لیے جگہ بنانا ہے اور ان فنکاروں کے لیے آزاد فضا کا انتظام کرنا ہے۔ لاہوتی کی جو سب سے زیادہ فرحت بخش بات لگتی ہے وہ ہے فنکاروں کا انتخاب، ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد فنکاروں کو اشتہاری بنا نہیں ہے بلکہ صلاحیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے انتخاب کرنا ہے۔ ہر سال لاہوتی آپ کو نئی مقامی آوازوں میں گنگناتے ہوئے ملتا ہے۔

اس سال لاہوتی کے دو میلے منعقد ہوئے۔ پہلا میلہ جون میں سندھو دریا کے گیت گاتے منایا گیا۔ اس کے لیے ’دریا کو بہنے دو‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ یہ نعرہ جذباتی بنیادوں پر نہیں لگایا گیا تھا بلکہ تاریخی سیلابوں کی صورت میں سامنے آنے والے سائنسی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے عقلی بنیادوں پر بات کی گئی۔ سندھو دریا کی اہمیت اور بدصورت پہلو پر بھی بات کی گئی۔ سندھو اور اس سے جڑی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی بات کی گئی۔

دوسرا میلہ ابھی کچھ دن پہلے ’کمنگ ٹوگیدر‘ کی تھیم کے ساتھ ان فن کاروں کی مدد کے لیے منعقد ہوا جو سیلاب کی زد میں آ گئے تھے۔ یہ کتنی خوبصورت بات ہے کہ جو پلیٹ فارم مقامی فنکاروں کی صلاحیتوں کو راستہ دینے کے لیے بنا وہ مشکل کی گھڑی میں فن کاروں کی زندگی کی فکر بھی کر رہا ہے۔

لاہوتی کامنگ ٹوگیدر میں زیادہ نمائندگی ان فن کاروں کو ملی جو سیلاب کی زد میں آئے۔ باقی کے فن کاروں نے بغیر کسی معاوضے کے وہاں پرفارم کیا۔

دل موہ لینے والا سب سے خوبصورت منظر وہ تھا جب خیرپور (جو سیلاب زدہ علاقہ ہے ) کے فن کار حسین ڈنو نے ’جنھن دل پیتا عشق دا جام‘ گانا شروع کیا۔ حسین ڈنو کی آواز اور ساز ہوا میں ایک قسم کی مستی پھیلا رہی تھی۔ یہ سامعین پر سحر طاری کر دینے والا ایک بہت دل فریب منظر تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments