دہشت، بغاوت اور لاقانونیت: کیا حکومت محض تماشائی ہے؟


وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ’سوات میں اس وقت جو ہو رہا ہے وہ آگ ہمارے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے‘ ۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی رہنما اور وفاقی وزیر ماحولیات شیری رحمان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو صورت حال موجود ہے، وہ بغاوت کی کوئی قسم نہیں ہے بلکہ دہشت گردی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات پر پوری قوم کو اعتماد میں لیا جائے‘ ۔

قومی اسمبلی میں تقریریں کرتے ہوئے وفاقی وزرا نے جو باتیں کی ہیں، ان سے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ حکومتی نمائندے دہشت گردی کے خلاف پوری قوت استعمال کرنے کا اعلان کر رہے تھے یا وہ بلوچستان کے بگڑتے ہوئے حالات اور لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ ان تقریروں سے یہ بھی واضح نہیں ہوتا کہ خواجہ آصف، شیری رحمان یا ریاض پیرزادہ پاکستان کے شہریوں کے طور پر اپنا دکھ بیان کر رہے تھے یا وہ وفاقی کابینہ کا حصہ ہونے کی حیثیت میں حکومت کے اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ دہشت گردی کے علاوہ لاقانونیت سے نمٹنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی وزرا کا یہی طرز تکلم اس وقت ملک کو درپیش مسائل کی حقیقی جڑ ہے۔ حکومت کے نمائندے سوات کی دہشت گردی اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ماورائے قانون قتل پر اظہار افسوس تو کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس ان دونوں مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج قومی اسمبلی میں وفاقی وزرا نے اگرچہ زوردار تقریریں کیں لیکن ان سے نہ تو حکومت کی صلاحیت و عزم کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی عوام کو یقین دلایا جا سکا ہے کہ حکومت اس صورت حال کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرے گی۔ اس کی بجائے تینوں وفاقی وزرا نے اس انداز میں باتیں کی ہیں کہ جیسے وہ خود سوالی ہوں اور کسی غیرمرئی طاقت سے مسئلے حل کرنے کی درخواست کر رہے ہوں۔ وفاقی وزیر دفاع اس بارے میں بھی لاعلمی کا مظاہرہ کرتے پائے گئے کہ وہ بلوچستان میں جس بغاوت کی نشاندہی کر رہے ہیں، اسے کون سے عناصر ہوا دے رہے ہیں اور کون ان کی روک تھام کرنے کا ذمہ دار ہے۔ وزیر ماحولیات شیری رحمان نے دہشت گردی کو کسی صورت قبول نہ کرنے کا عزم ضرور ظاہر کیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ یہ بیان محض پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن واضح کرنے کے لئے دے رہی تھیں یا وفاقی کابینہ کی رکن کے طور پر وہ یہ ذمہ دار قبول کر رہی تھیں کہ دہشت گرد خواہ کوئی عذر تراش کر عوام کے جان و مال پر حملہ آور ہوں، حکومت ان کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ کی باتیں بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہی تھیں کہ جیسے موجودہ حکومت معاملات درست کرنے، پالیسیاں نافذ کرنے اور تمام اداروں سے اپنی حکمت عملی کے مطابق کام لینے کے لئے اقتدار میں نہیں آئی بلکہ اس کا کام محض کسی ’مبصر‘ کا ہے جو اپنے مشاہدات بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ ورنہ کوئی وفاقی وزیر کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ ’ہم ملک کے حالات سے مزید منہ نہیں موڑ سکتے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ہمیں بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے ادارے، عدلیہ، افواج ہمارا تحفظ نہیں کر سکیں۔ غیر ملکی مداخلت کے لئے جس طرح ہم استعمال ہوئے اور جس طرح پارلیمنٹ میں سلیکٹڈ لوگ آ گئے، جس طرح توسیع کے چکر میں ملک کے ساتھ کھیل کھیلا گیا۔ پنجاب میں عدم برداشت اور زمینوں پر قبضہ، یہ سب کوئی ایک فرد نہیں بلکہ ان میں ادارے ملوث ہیں۔ چاہے وہ عدل و انصاف کے ہوں یا محافظ ادارے ہوں‘ ۔ وفاقی وزیر کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ’جن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، انہیں عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا۔ اگر ہم ایسے معاملات پر ایوان میں بھی بات نہیں کریں گے تو کل ہمیں خبریں ملیں گی کہ ایک شیعہ یا بلوچ کو مار دیا گیا۔ ہمیں اتنا بھی کمزور نہ سمجھا جائے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، ملک کی پارلیمنٹ کو بھی سوچنا چاہیے‘ ۔

یہ باتیں سن کر حیرت ہوتی ہے کہ ان وفاقی وزرا کے خیال میں پارلیمنٹ کیا ہے اور کیا حکومت، پارلیمنٹ سے ماورا کسی قوت کا نام ہے؟ کیا قائد ایوان ہی ملک کا وزیر اعظم نہیں ہے اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والی وفاقی کابینہ ہی اس بات کی پابند نہیں ہے کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر انہیں حل کرنے کے لئے تجاویز تیار کرے۔ جن تجاویز پر انتظامی اختیار کے تحت عمل نہیں ہو سکتا، ان پر قانون سازی کی جائے تاکہ تمام ادارے موثر طور سے کام کرسکیں اور دہشت گردی ہو یا سرکاری عمال کی قانون شکنی، ایسے تمام ناپسندیدہ کاموں کا قلع قمع ہو سکے۔

اس کے برعکس ایک وزیر دہشت کی آگ ہمارے گھروں تک پہنچنے کا خوف دلا رہا ہے، دوسرا دعویٰ کرتا ہے کہ دہشت گردی کسی قیمت پر قبول نہیں اور تیسرا پارلیمنٹ کو جھنجوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں محض زیب داستان کے لئے ہیں؟ اور اپنی ذمہ داری فرار کے لئے لچھے دار باتوں سے پارلیمانی اجلاس کو گرما نے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کی حکومت بھی عوام کی پریشانی میں شریک ہے۔ تاہم یہ کارنامہ سرانجام دینے والے وزرائے کرام کو باور کروانا ضروری ہے کہ ان کا کام قومی اسمبلی میں دل دوز تقریریں کرنا اور روح فرسا حالات کا بیان نہیں ہے بلکہ ان مسائل کو حل کرنا ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہے۔ اگر وفاقی کابینہ بھی دہشت گردی یا اداروں کی لاقانونیت کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر اس کے ارکان کس منہ سے قومی اسمبلی کے فلور پر یوں باتیں کر رہے ہیں جیسے وہ اپوزیشن کے ارکان ہوں اور حکومت وقت کو جھنجوڑنے کا فریضہ ادا کر رہے ہوں۔ قومی منظر نامہ پر اس اندوہناک اور ناقابل قبول صورت حال کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دہشت گردی اور بلوچستان میں ماورائے عدالت ہونے والی ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے صورت حال کی سنگینی پر توجہ مبذول کروائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بے گناہ لوگوں کو متعدد واقعات میں قتل کیا جا رہا ہے، پھر انہیں دہشت گرد بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ سوموار کو بلوچستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے تین لاپتہ افراد کو ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا۔ بلوچستان میں اب حالات انتہا کی جانب بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ماورائے عدالت ان سب ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ تاکہ جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے لوگوں کے حقائق سامنے آ سکیں‘ ۔

بلوچ رہنما کے انتباہ اور مسئلہ کی تہ تک پہنچنے کیے لئے ٹھوس تجویز کے جواب میں وفاقی وزرا نے جوش بیان سے سارے مسئلے حل کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر کون ان شکایات کو دور کرنے کی ذمہ داری قبول کرے گا۔ حالانکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ’جو صوبائی یا مرکزی حکومت عوام کے دکھ درد نہیں بانٹ سکتی اور ان کا مداوا نہیں کر سکتی، اسے حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہو سکتا‘ ۔ یہ بیان کرتے ہوئے خواجہ آصف شاید بھول رہے تھے کہ وہ خود حکومت کے نمائندے ہیں اور ایک طاقت ور وزارت کے نگران ہیں۔ بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں پر وزیر دفاع براہ راست جوابدہ ہیں کیوں کہ جن اداروں پر اس قسم کے ماورائے عدالت واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہوتا ہے، وہ سب وزارت دفاع کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے حکومتی نمائندوں نے عام طور سے اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے خاص طور سے دہشت گردی اور لاقانونیت کی صورت حال کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا۔ اس موقع پر بھی تحریک انصاف کے سیاسی احتجاج اور عمران خان کی مہم جوئی کو مورد الزام ٹھہرا کر اصل مسئلہ سے نظریں چرانے کی اپنی سی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’تمام سیاسی قوتوں کو اس صورت حال کو ترجیح دینی چاہیے۔ سردار اختر مینگل نے جن مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے، اگر انہیں اب حل نہ کیا گیا تو یہ بوجھ مستقبل کی نسلوں کو منتقل ہو گا۔ نوجوان ہماری طرف دیکھ رہے ہیں‘ ۔

خواجہ آصف میں اگر اس ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ ہوتا تو وہ اپنی تقریر کے دوران یہ اعلان نہ کرتے کہ ’ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے مسائل کا حل تلاش کرے، اس مسئلہ کا حل اعلیٰ سطح پر تلاش ہونا چاہیے‘ ۔ سب جانتے ہیں کہ وزیر دفاع کس ادارے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن سوال ہے کہ اگر ادارے ہی ریاست کے مسائل حل کرنے کے حتمی ذمہ دار ہیں تو ملک کے سیاست دان جمہوریت اور انتخاب کا ڈھونگ رچا کر عوام کو کون سی سہولت پہنچانے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

وفاقی وزیر دفاع نے سردار اختر مینگل کی شکایات کو درست تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ’ریاست کے یہ زخم بہت طویل عرصے سے رس رہے ہیں۔ انہیں نظر انداز کرنا یا انکار کرنا قوم کے لئے نہایت نقصان دہ ہو گا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کب اپنے کاندھوں سے یہ بوجھ اتاریں گے۔ بلوچستان میں طویل عرصہ سے نچلے درجے کی بغاوت کے آثار ہیں۔ اس کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے‘ ۔

واضح رہے کہ بات چیت ضرور مسائل کا حل ہو سکتی ہے لیکن سب سے پہلے حکومت کو ان ریاستی اداروں کا ہاتھ روکنا ہو گا جو بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ جب تک خوں ریزی کا سلسلہ بند نہیں ہو گا، اس وقت تک کوئی مکالمہ یا ڈائیلاگ بامقصد اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ حکومت اسی وقت سوات میں دہشت گردی کے حالات اور بلوچستان میں عوام کی خوں ریزی جیسے مسائل حل کرنے کا سبب بن سکتی ہے جب وہ یہ اعتراف کرے کہ یہ حالات براہ راست اس کی ذمہ داری ہیں اور انہیں حل کرنا بھی حکومت وقت کا کام ہے۔ تب ہی سیاسی قیادت اداروں کو مجبور کرسکے گی کہ وہ اس کے بنائے ہوئے لائحہ عمل پر کام کریں یا جوابدہی کے لئے تیار ہوجائیں۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزرا یہ وعدہ کرنے میں ناکام دکھائی دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments