بوسنیا کی چشم دید کہانی(16)


اب اگست کا آغاز ہو چکا تھا۔ یوم آزادی مشترکہ طور پر منانے کے لیے ناظم دستہ جناب زبیر صاحب کی طرف سے انتظامات کا آغاز پہلے ہی سے جاری تھا۔ ابھی تک جگہ کا فیصلہ نہ ہو پایا تھا۔ اگست کے شروع میں اطلاع موصول ہوئی کہ یوم آزادی منانے کے لیے سرائیوو کے ہوٹل ہالیڈے ان کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل میں نے اپنی ماہانہ چھٹی 15 تا 20 اگست منظور کروا لی تھی۔ بڑی سوچ بچار کے باوجود یہ فیصلہ

بہر حال ابھی تک نہ ہو پایا تھا کہ اس چھٹی کے دوران کدھر کا رخ کیا جائے۔

14 اگست کو میں اور اقبال علی الصبح چپلینا سے روانہ ہوئے اور دیے گئے وقت یعنی 9 بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمیں اس تقریب میں شرکت کی ازحد بے تابی تھی۔ اس کی ایک وجہ اس دن سے جذباتی وابستگی تھی۔ دوسرے آج ان دوستوں سے پہلی ملاقات ہونا تھی جن سے پچھلے دو ماہ کے دوران دور دراز مقامات پر تعینات ہونے کی وجہ سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا تھا۔ ان دوستوں میں سر فہرست ڈی ایس پی زبیر شاہ اور زوہیب اللہ تھے۔

ہوٹل ہالیڈے ان سرائیوو کے مرکز باش چارشیہ کی طرف بڑھتی ہوئی مارشل ٹیٹو روڈ کے بالکل آغاز میں واقع ہے۔ شہر کے اس حصے کی تمام بلند و پست عمارتیں جنگ سے بری طرح متاثر ہوئیں۔ جنگ نے بلند عمارتوں سے ان کی بڑائی کا خراج حصہ بہ قدر جثہ وصول کیا۔ ان میں سے ایک ہوٹل ہالیڈے ان کی عمارت تھی۔ دوسری عمارتیں تو ابھی تک عالم شکستگی ہی میں اپنی عظمت رفتہ کا نقشہ کھینچ رہی تھیں جب کہ ہالیڈے ان کا معاملہ اور تھا۔ اس کی اندرونی اور بیرونی مرمت کا کام اپنی تکمیل تک پہنچنے والا تھا۔

اس کی رونقیں بھی کافی حد تک بحال ہو چکی تھیں۔ اس کی ایک رونق تو بحالی سے بھی کچھ آگے بڑھ گئی تھی۔ یہ رونق ہوٹل کی پانچویں منزل پر واقع دو کمروں پر محیط پاکستانی سفارت خانے کے پہلے کمرے میں استقبالیہ پر موجود نادہ نامی گوری مٹیار تھی کہ جس کا دم دل پھینک پاکستانیوں کو بلاوجہ بھی اس ’مقتل‘ کی طرف کھینچ کھینچ لاتا تھا۔

آج کی تقریب میں تمام ممالک کی پولیس کے سربراہان دستہ اور یو این کے سربراہ۔ مشن جناب اقبال رضا مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ آپ کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ہم میں سے سوائے ان لوگوں کے جن کی تعیناتی سرائیوو یا پھر اس کے گرد و نواح میں تھی، کسی نے آج تک ان کو نہ دیکھا تھا لیکن ہم میں سے ہر کوئی اسے اپنا اعزاز سمجھتا تھا کہ بوسنیا میں یو این مشن کا سب سے بڑا عہدے دار ایک پاکستانی ہے۔ میرے اسٹیشن پر بولک کو نہ معلوم کیوں یہ غلط فہمی تھی کہ ہر پاکستانی جناب اقبال رضا کو ذاتی طور پر جانتا ہو گا اور وقت ضرورت اس کے لیے سفارش کا کام دے گا۔

چنانچہ وہ ابھی سے مجھ سے وعدہ لینے کی بار بار کوشش کرتا تھا کہ اس کے فروری 1997 ء میں اختتام پذیر ہونے والے مشن میں توسیع کروانے کے لیے میں اقبال رضا صاحب سے اس کی سفارش ضرور کروں گا۔ میں بھی سچ بول کر اپنا بھانڈا پھوڑنے اور بولک کی آس توڑنے کے بجائے ہاں، ہوں کر کے بات ٹال دیتا تھا۔ جب اقبال چھیڑ خانی کرتا کہ بچے ابھی تو اقبال رضا کے رشتہ دار بنے پھرتے ہو لیکن جب اگلے سال فروری میں بولک اپنی درخواست تمہارے حوالے کرے گا تو پھر کیا کرو گے، تو میں بس اتنا جواب دیتا۔

ع۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

یہ راز اگرچہ بہت بعد میں کھلا کہ میرا اقبال رضا صاحب کا رشتہ دار ہونے کا تاثر بھی اقبال ہی کی شرارت تھی۔

تقریب میں پاکستان آرمی کے امن دستہ کے افسران، اقبال رضا صاحب کے ملٹری سیکرٹری کرنل محسن اور یو این کے مختلف شعبوں سے نجی حیثیت سے منسلک پاکستانی بھی موجود تھے۔ ان میں سیکورٹی سٹاف ممبر چیمہ صاحب سب سے ممتاز تھے جو سرائیوو میں آنے والے ہر پاکستانی کا استقبال بڑی محبت اور خلوص سے کیا کرتے تھے اور اس کی رہائش کا بندوبست کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز وقت مقررہ پر ہوا۔ تلاوت کلام مجید کے بعد زبیر صاحب نے خطبۂ استقبالیہ پڑھا۔ پھر مہمان خصوصی نے تقریر کی اور پاکستانی دستے کو بوسنیا کے تمام باسیوں کی بلا لحاظ نسل و مذہب خدمت کو اپنا شعار بنا کر اپنے ملک کا ایک اچھا تاثر پیدا کرنے کی تلقین کی۔ اس کے بعد اس دن کی روایت کو نبھاتے ہوئے سب نے ہم آواز ہو کر قومی ترانہ گایا۔ پھر مہمانوں کی تواضع پر تکلف چائے سے کی گئی۔

اس دوران پاکستانی سفارت خانہ کا ایک نمائندہ شلوار قمیص اور شیروانی میں ملبوس، بغل میں ایک فائل دبائے زبیر صاحب کی توجہ حاصل کرنے کی بار بار کوشش کر رہا تھا۔ یہ فائل ان دو عدد پیغامات پر مشتمل تھی جو اس موقع پر صدر اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔ نمائندہ موصوف انھیں شرکائے تقریب کے سامنے پڑھ کر سفارتی فرائض کی تکمیل چاہتے تھے۔ ادھر اہل بزم چونکہ اس طرح کے پیغامات کی اصلیت سے کماحقہ، واقف تھے لہٰذا ان کے لیے ان میں دل چسپی ندارد تھی۔

نمائندہ موصوف نے جب یہ بھانپ لیا کہ بھری بزم کو اپنی طرف متوجہ کرنا نا ممکن ہے تو انھوں نے ایک طرف چائے پینے کے لیے جمع چند پاکستانی ساتھیوں کو جا گھیرا اور فر فر دونوں پیغامات پڑھ ڈالے۔ اس فریضہ کو نبھانا تھا کہ ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ میں نے جب یہ منظر دیکھا تو سوچا کہ یہاں پر موجود دوسرے پاکستانیوں کے مقابلے میں اس شخص کا یوم آزادی کا تصور کس قدر مختلف ہے۔ اس کے نزدیک اس دن کی ساری اہمیت ان دو پیغامات کو پڑھنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کیوں کہ یہ فرائض منصبی کا تقاضا بھی ہے اور عہدے کی سلامتی کی ضمانت بھی۔

اس تقریب کے اختتام تک اقبال رضا صاحب ہمارے درمیان رہے۔ غیر ملکی مہمانوں کے چلے جانے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر ہمیں اکٹھا کیا اور نہایت شفقت کے ساتھ ہمیں وہ راہ نما اصول سمجھائے جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم اپنا اور اپنے ملک کا بہتر تاثر قائم کر سکتے تھے۔

تقریب کوئی دو بجے کے قریب ختم ہوئی۔ اس دوران جب مرزا، میمن اور مظفر سائیں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ ان کی چھٹی کا آغاز بھی کل سے ہو رہا ہے۔ انھوں نے یہ چھٹی ویانا میں گزارنے کا پروگرام بنایا ہے۔ میں نے بھی ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے آج سہ پہر کی پرواز سے زغرب روانہ ہونا تھا۔ تقریب کے اختتام کے فوراً بعد میں نے PTT بلڈنگ کی راہ لی۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد میں بھی اسی جہاز میں سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

سرائیوو اور زغرب کے درمیان ایک گھنٹے سے کچھ اوپر کا فضائی فاصلہ تھا۔ اس روٹ پر یو این کے سی 130 جہاز دن میں دو مرتبہ پرواز کرتے تھے۔ ان جہازوں میں ریلوے کے درجہ دوئم کی طرز کے لکڑی کے تختے لگے ہوتے تھے۔ البتہ چند نشستیں اہم عہدے داروں کے لیے لگائی گئی تھیں ہمارا مقدر اکثر یہ تختے ہی بنتے تھے۔ ڈالرز کی بچت چونکہ ہم میں سے ہر ایک کا یہاں نصب العین تھا، لہٰذا مفت کا یہ سفر آرام دہ نہ ہوتے ہوئے بھی وارے میں سمجھا جاتا تھا۔

ہم ساڑھے چار بجے کے قریب زغرب پہنچ گئے۔ زغرب ائرپورٹ کے بالکل سامنے واقع ولیکہ گوریسہ نامی بستی میں بہت سے ایسے گھر تھے جن میں بوڑھی خواتین اکیلی رہتی تھیں اور ان میں دس ڈالر یومیہ کے حساب سے منجی بستر دستیاب ہوتا تھا۔ یہ گھر تمام سہولیات سے آراستہ تھے۔ شروع شروع میں یہاں ہر گھر میں فی کس دس ڈالر یومیہ بہ آسانی رہائش مل جاتی تھی۔ لیکن بعد میں یہ نرخ بڑھ کر 15 ڈالر ہو گیا۔ ان دنوں میں بھی کچھ مالکان پرانی علیک سلیک کی وضع داری نبھاتے ہوئے دس ڈالر ہی پر اکتفا کر لیتے تھے۔

ان گھروں کی مالکان بوڑھی خواتین کا رویہ اتنا مثالی ہوتا تھا کہ ہم میں سے ہر کوئی پہلے پہل جہاں کہیں بھی ٹھہرتا وہ اس خاتون خانہ کے حسن اخلاق اور فراہم کردہ سہولیات کا گرویدہ ہو جاتا۔ یوں بعد میں وہ اسی گھر میں ٹھہرنے کو ترجیح دیتا۔ اس علاقے میں یہ اپنے قیام کا پہلا تجربہ تھا اس لیے پہلے سے کسی گھر کی نشان دہی بھی نہ تھی۔ رہائش کے حصول کے لیے ہم نے مقامی زبان کے کچھ فقرے رٹے ہوئے تھے جن کی گردان بستی میں داخل ہوتے ہی شروع ہو گئی۔

ایما تلی سو بو۔ (کیا آپ کے پاس کمرہ ہے )
ایما / نیما (ہاں /نہیں )
کولیکوکوشتہ یدنانوچ (ایک رات کا کیا کرا یہ ہو گا)
کرایہ زیادہ ہو تو، ’سکوپو‘ اور مناسب ہو تو ’دوبرو‘

پہلے دو گھروں میں یہ مکالمہ پہلے فقرے سے آگے نہ بڑھ سکا کیوں کہ جواب نیما تھا۔ تیسرے گھر میں جواب ایما ہونے کی وجہ سے اپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرنے کا موقع بھی مل گیا اور ٹھکانہ بھی۔ ہم نے رہائش کے ساتھ ساتھ کھانے اور ناشتے کا نرخ بھی طے کر لیا۔ اس سلسلے میں مرزا مظفر کی زبان دانی کام آئی۔ روچک دوے ڈالرا، دوروچک یدن ڈالرا۔ (کھانا دو ڈالر اور ناشتہ ایک ڈالر) ۔ خاتون خانہ کی عمر 60 سے اوپر ہی ہو گی۔ وہ درمیانے قد کی قدرے بھاری خاتون تھیں۔ ہم یہاں دو راتیں ٹھہرے اور اس دوران انھوں نے جس محبت اور پیار کے ساتھ ہمارے آرام اور طعام کا خیال رکھا وہ یادگار تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments