پاکستان کو کیسا رہنما چاہیے


اسلامی جمہوریہ پاکستان چودہ اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ اتنے سالوں میں پاکستان نہ خالص اسلامی بن سکا اور نہ جمہوری۔ پاکستان کی اکثریتی عوام کی رائے ہے کہ پاکستان کو بس اللہ چلا رہا ہے۔ اور ان شاء اللہ قیامت تک اللہ ہی چلاتا رہے گا۔ لیکن جدید دور کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ملک ہے۔ جس نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کی اور پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر جدید تقاضوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کا کہیں کوئی نام نہیں ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی سے پاکستان کا کیا لینا دینا ہم تو بس چین جاپان کوریا اور مغرب کی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ خود کسی شعبے میں طبع آزمائی نہیں کی تو ہمارا نام دنیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی فہرست میں کہاں آئے گا۔ اگر تعلیم کی بات کی جائے تو پاکستان کا نام دنیا کی 500 بڑی یونیورسٹیوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہاں آٹا سو روپے کلو اور پاکستانی عوام کی خوراک پوری کرنے کے لیے اجناس دوسرے ممالک سے منگوانے پڑھتے ہیں۔

سو اسی وجہ سے کسان اپنی زمین بیچ کر ان پر عمارتیں کھڑی کر رہے ہیں۔ عوام کے لئے بجلی ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ بجلی کے بل ہر مہینے بڑھتے جا رہے ہیں۔ سردیوں میں گیس کا نام و نشان نہیں ڈالر اوپر جا رہا ہے اور روپیہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔ ہماری معیشت قرضوں پر چل رہی ہے یہ قرض کون اتارے گا کسی کو کوئی احساس نہیں ہے۔ عوام اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پال رہے ہیں یہ وہی جانتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد حکمرانوں کو عوام کی پریشانی کا کوئی احساس نہیں۔

تمام بنیادی سہولیات حکمرانوں کے لیے میسر ہیں۔ لیکن عوام کے لیے زندگی کی سانسیں لینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آج تک پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی اچھا رہنما کیوں نہ مل سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے پاکستان میں ارباب اختیار کا احتساب نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جو بھی حکمران بنا اس نے سب سے پہلے اپنے پیٹ کی فکر کی۔ عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں جیسے ہی حکمرانی کا اختیار ملا ان کے اثاثے بڑھتے گئے آج تک کسی کا کوئی احتساب نہ ہوا۔

ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ملک دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔ کاش پاکستان کو کوئی ایسا رہنما مل جاتا جو صرف عوام کی فکر کرتا۔ عوام کو کیا کیا مراعات دینی ہیں۔ پاکستان کو کس طرح دنیا میں باعزت مقام دینا ہے۔ پاکستان کے پاسپورٹ کی اہمیت کس طرح بڑھانی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ پاکستان کو کس طرح جدید زراعت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کو کس طرح جدید تقاضوں سے روشناس کرنا ہے۔

اسلامی فلسفہ حیات کو کس طرح لاگو کرنا ہے اور کس طرح پاکستان کا اسلامی تشخص قائم رکھنا ہے۔ افسوس صد افسوس آج تک ہمیں صرف سبز باغ دکھائے گئے۔ عملی طور پر کچھ بھی نہ ہو سکا۔ جدید دور میں ترقی کرنے کے لیے سالہاسال کی ضرورت نہیں ہوتی اگر کوئی ایک مخلص راہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح یہاں بھی دس پندرہ سالوں میں زبردست ترقی ہو سکتی تھی۔ لیکن پاکستان ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ یہاں ہر روز ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے۔

پاکستانی غریب عوام پر اتنے زیادہ ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ عوام کے لیے زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔ کاش کوئی ایسا رہنما پاکستان کو مل جاتا جو صرف عوام کے بارے میں سوچتا اور اور ہماری عوام کے کون سے بڑے مطالبات ہیں۔ عوام کو صرف اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ہانڈی روٹی کے لئے مناسب دام والی چیزیں چاہیں۔ کیا کوئی راہنما ایسا بھی نہیں کر سکتا۔ عوام کو سستا پٹرول اور بجلی چاہیے۔ کیا یہ بھی ممکن نہیں ہے عوام کو مفت معیاری تعلیم چاہیے۔

کیا یہ بھی مشکل ہے۔ پاکستان کے ماہرین اقتصادیات ذرا بیس ہزار روپے میں چھ لوگوں کے خاندان کا بجٹ بنا کر دکھائیں اور یہ ماہرین اقتصادیات ایسے ہیں جو ایک وقت کے کھانے پر 20 ہزار سے زیادہ اڑا دیتے ہوں۔ عوام کے ساتھ ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ اتنے سالوں میں تھانہ کچہری نہ بدل سکا کوئی نظام نہیں بن سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جو عوام کی ترجمانی کرتا ہو۔ جتنے بھی حکمران آئے وہ خواص کی ترجمانی کرتے رہے جو غریب عوام سے اٹھے گا اس کو غریب عوام کا احساس ہو گا۔

جن کو یہ نہیں پتا کلو اور لیٹر میں کیا فرق ہوتا ہے۔ کون سی چیز لیٹر میں ملتی ہے اور کون سی چیز کلو میں فروخت ہوتی ہے وہ ہمارے حکمران بن چکے ہیں۔ پاکستان کو اگر دنیا میں اپنا نام پیدا کرنا ہے تو پھر پاکستان کی اکثریتی عوام کی نمائندگی کرنے والا ایسا رہنما چاہیے جو غریب عوام میں سے ہو۔ جس نے غربت کو محسوس کیا ہو جو کئی کئی دن بھوکا رہا ہو۔ جس نے سوکھی روٹی کھائی ہو۔ جو سو روپے کا پٹرول ڈلوانے کے لیے سوچ بچار کرتا رہا ہو۔ ان میں سے کوئی ایسا حکمران جب ایوان اقتدار میں پہنچے گا تو پھر حقیقی تبدیلی کا سورج طلوع ہو گا ورنہ جس طرح پچھتر سال گزر گئے شاید مزید 75 سال بھی گزر جائیں۔ اللہ تعالی پاکستان کا حامی و ناصر ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments