عشق کا سفر نامہ :غار حرا میں ایک رات


بس اک ستارہ ترے فلک کا مری جبیں پر
بس اک اشارہ تری شفاعت کی برجیوں سے
بس اک جھلک روئے پاک کی، ہچکیوں سے پہلے
اگر سفر خواب کا ہو طے ہم مسافروں سے
محمد اظہار الحق

دنیائے ظاہر اور عالم باطن میں عجیب و غریب طلسماتی ربط پایا جاتا ہے اور ہر امر کی تفہیم اہل عقل حواس و حسیات سے کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ بہت کچھ ایسا وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے جو ہمارے سامنے کی دنیا یعنی آنکھ (بصارت) اور عقل کے محدودات کے دائرے سے باہر ہوتا ہے۔ گویا ایک پر اسرار عالم غیب ہے۔ اس عالم غیب کو ہم انسانی محدودات سے حتمی طور پر اس لیے بھی طے نہیں کر سکتے کہ محدود کبھی لا محدود کا عارف قطعی نہیں ہو سکتا۔

تخلیق وہی قاری پر اثر چھوڑتی ہے جو اپنی حرف حرف تاثیر سے قاری کے دل و دماغ کو جھنجوڑ دے۔ اور ایسی طرز ایسی تحریر محض لفظوں کی گردان نہیں ہوتی بلکہ مصنف کے باطن سے درد کی تاثیر قرطاس پر منتقل ہوتی ہے۔ احوال باطنیہ اپنی جگہ ایک پر اسرار دنیا تشکیل دیتے ہیں۔ ظاہری اسباب کی دنیا میں رہتے ہوئے انسان کسی اور عالم کا باسی ہو جاتا ہے۔ سرخوشی اور سرمستی کا یہ منطقہ صرف اور صرف عشق سے نصیب ہو سکتا ہے جس کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں سوائے کسی صاحب نظر کی توجہ اور نگاہ کرم کے۔

عشق کا سب سے پاکیزہ اعجاز خالق اور مخلوق کے باہمی ارتباط کی تشکیل ہے۔ ”سیر الی الارض“ سے لے کر ”سیر الی اللہ“ کے تمام مراحل و مدارج و منازل اسی ازلی ابدی جذبہ کا اظہاریہ ہیں۔ ہر مشرب و مسلک کا انسان اپنے روحانی تجربات بتدریج طے کرتا جاتا ہے، کبھی اس کا سفر بے نتیجہ ختم ہو جاتا ہے اور کبھی منزل اپنے سالک کی منتظر ہوتی ہے۔ خالق کی طرف ایک غائبانہ کشش اسے کھینچتی رہتی ہے اور باطنی ارتقاء کے ساتھ وہ ان مذہبی، روحانی مقدس مقامات کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے جہاں اس سے پہلے برگزیدہ، منتخب و برتر انسانوں نے معبود حقیقی سے جڑت کی سعی کی تھی۔

”غار حرا میں ایک رات“ مستنصر حسین تارڑ کا وہ سفرنامہ ہے جس میں ”عشق“ اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ”نسبت“ اس زمینی سفر کو روحانی تجربے میں ڈھال دیتے ہیں۔ مذہبی مقدسات کے اسفار کے احوال و آثار ہر زبان اور ہر خطہ میں بہت سے رقم کیے گئے ہیں۔ اردو زبان میں بھی بہت سے خوش نصیبوں نے ”سرزمین رسول“ کے سفر کی روداد لکھی اور ان میں سے کئی ایک سفر نامے شاندار ادبی جہت اور علمی مرتبہ رکھتے ہیں۔

مستنصر حسین تارڑ بہت مقبول سفرنامہ نویس ہیں اور ان کے قلم سحر طراز سے ہمیشہ ایسے شہکار جنم لیتے رہے جن سے قارئین کا وسیع حلقہ متاثر ہوتا رہا ہے۔

” غار حرا میں ایک رات“ دراصل ایک خواہش اور ایک آرزو بن کر سفرنامہ نگار کے دل میں مچلتی رہی کہ وہ مقام جسے لمس رسول کی سعادت حاصل رہی اور جہاں رسالت مآب ﷺ گوشہ نشین ہو کر معبود حقیقی سے راز و نیاز میں، ذکر و فکر میں محو رہے، وہاں پر شب بسر کی جائے اور شب کی تنہائی میں خالق ارض و سما سے جڑت کی سبیل کی جائے۔ غار حرا کو اسلامی مقدسات میں یہ نادر مرتبہ حاصل ہے کہ یہاں فرشتہ جبرائیل اولین پیغام وحی بارگاہ واجب الوجود سے صاحب رسالت کو پہنچاتا ہے۔

سفرنامہ نگار کے دل میں یہ آرزو کیوں جنم لیتی رہی کہ ایک رات غار حرا میں گزاری جائے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں وہاں سارا دن زائرین کی چہل پہل رہتی ہے۔ آنا جانا لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ خشوع خضوع اور تخلیہ کی کیفیات کم کم نصیب ہوتی ہیں جو کہ رات کی طویل خامشی میں میسر آ سکتی ہیں جب دامن دعا پھیلا کر معبود اور عبد کے تعلق اور رشتہ کو آنسوؤں اور ہچکیوں سے سینچا جائے، یاد رسول میں دل کے دکھڑے سنائے جائیں اور تڑپ کو وہ مقام عطا ہو جس میں گفتگو کے لیے الفاظ غیر ضروری ہوں۔

اس سفر میں آرزو سے بڑھ کر کیا چیز زاد راہ ہو سکتی ہے جو اپنے مسافر کو ہر قسم کی مشکلات اور ممکنہ دشوار مراحل میں ثابت قدم رکھ سکے۔ یہی تمنائے بے تاب ہی تو ہے جو عشق سے عبارت ہر روایت، ہر داستان، ہر سفر میں محرک بھی ہے اور ہمہ وقت رفیق کار بھی۔ اس سفر میں مستنصر حسین تارڑ کے ذہن و باطن میں ایک کشمکش جاری ہے۔ ایک طرف عقل مصلحت آشنا ہے جو یہ کہتی ہے کہ ”ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی شخص نے غار حرا میں پوری رات گزاری ہو۔

“ اور پھر ان دنوں جب سعودی عرب میں بہت پکڑ دھکڑ ہو رہی ہو، دہشت گردی کی فضا میں پولیس کی چیکنگ بڑھ چکی تھی اور امکان تھا کہ دہشت گردوں کی تلاش میں پولیس غار پر بھی آ جائے۔ اور پھر اندر سے یہ آواز آتی ہے کہ ”غار حرا میں ایک رات بسر کر بھی لیتا ہوں تو کیا ہو گا۔ میں جیسا اوت کا اوت ہوں، ایسا ہی رہوں گا۔“ ۔ اس مخمصے میں پاسبان عقل جب دل کو تنہا چھوڑ دیتا ہے تو تارڑ صاحب اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ”غار حرا میں رات بسر کرنے کی خواہش بے جواز نہیں ہو سکتی تھی، جواز اگر میرے پاس نہ تھا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ جواز نہ تھا۔ وہ مقام بذات خود ایک جواز تھا۔“

مستنصر حسین تارڑ زندگی بھر ایک سیاح رہے ہیں اور ایک سیاح کبھی بھی سفری سامان اور رک سیک سے غافل نہیں رہ سکتا جس میں ضرورت کی ساری اشیا شامل ہوں۔ غار حرا جانے سے پہلے بھی وہ ضروری اشیا کی فہرست مرتب کرتے نظر آتے ہیں۔ جائے نماز سے لے کر بلڈ پریشر کی گولیوں اور منرل واٹر تک سبھی چھوٹی بڑی اشیا ساتھ لے جاتے ہیں کہ غار حرا میں شب بسری کو کسی اجڑے دیوانے کی بجائے ہوش مند عاشق کے طور پر جانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد بہت زیادہ جزئیات اور تفاصیل کے ساتھ غار حرا تک پہنچنے، رات گزارنے کے دوران اپنے مشاہدات رقم کیے ہیں۔

یہ سفر نامہ محض روحانی اور ماورائی نوعیت کی تقدس بھری تفصیلات کا گوشوارہ نہیں بنا حالانکہ تارڑ صاحب عام انسان کے طور پر اپنے خالص انسانی تجربہ کو پءش کیا ہے۔ غار حرا جاتے اور وہاں ٹھہرتے ہوئے تارڑ صاحب کو جو لوگ ملتے ہیں، ان کا دلچسپ مرقع (کہیں کم، کہیں زیادہ) ملتا ہے جو بہت مزے لے کر پر لطف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ باتیں روحانی متعلقات کی حامل اس سفری دستاویز کو خشک فلسفیانہ یا زاہدانہ رپورتاژ بننے بسے بچا لیتی ہیں اور پیش آنے والے ہر واقعہ پر عالمانہ حکیمانہ فیصلہ صادر کرنے کی بجائے انسانی ردعمل کا اظہار ملتا ہے۔

نسبت رسول سے جڑے روحانی ترفع کے حامل مقامات کی سفری روداد لکھتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ خود کسی بڑے سنگھاسن پر بیٹھ کر بڑے بڑے عارفانہ بھاشن دینے کی بجائے ایک عام مسلمان کے روزمرہ معمولات، سوچ، کیفیت، کش مکش، وسوسوں، نفل نمازوں اور دعاؤں کو بیان کیا ہے۔ نہ کوئی روحانی اصطلاحات کی لیپا پوتی اور نہ ہی خطابت، پند و نصائح کا مرغوب مسلمانی شیوہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح تحریر کے اسلوب میں بھی کوئی عالمانہ کثیف انشا پردازی نہیں جو پڑھنے والے کو درجہ دوم سوم کا قاری ہونے کا احساس دلائے۔ یہ ایک سیدھے سادھے سچے مسلمان کا سفر نامہ ہے جسے رسول سے محبت ہے، جو مکہ اور مدینہ کے سفر کو حاصل زندگی سمجھتا ہے۔

صلاح الدین محمود کے حوالے سے اسی سفر نامہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے مکہ سے مدینہ تک ان راستوں پر سفر کیا جن رستوں سے جناب رسالت مآب ﷺ نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ سفر اختیار کیا تھا۔ تارڑ صاحب کے بقول صلاح الدین محمود کو ہجرت کا پورا راستہ تو طے کرنے کی اجازت نہ ملی مگر وہ ایک دو روز کے لیے مدینہ کی جانب اسی راستے سے چلے۔ صلاح الدین محمود کی خواہش تھی کہ وہ اونٹ پر مکہ سے مدینہ کا سفر ان رستوں پر کریں جہاں قصوی کے سموں کے نشان ثبت ہوئے تھے ”ہجرت کے جو دن تھے اور جو راتیں تھیں، وہ حضور کے دن کیسے گزرے، وہ راتیں کیسی بسر ہوئیں۔

جب صلاح الدین محمود یہ روداد مستنصر حسین تارڑ کو سناتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہنے لگتے ہیں۔“ ۔ مستنصر جب میں نے تقریباً اسی مقام پر رات کا پڑاؤ کیا جہاں میرے حضور نے کیا۔ اور پھر اگلی سویر بیدار ہوا تو اپنے گالوں پر ایک ہلکی ٹھنڈک والی ہوا بکھری محسوس کی اور یک دم مجھے احساس ہوا کہ حضور کے چہرے کو بھی اسی ہوا نے ایسی سویر میں مس کیا تھا۔ ”(صفحہ 247 ) ۔ ہو سکتا ہے تارڑ صاحب کے غار حرا میں رات گزارنے کے قصد میں شعوری یا لا شعوری طور پر صلاح الدین محمود کے اس روحانی تجربے سے تحریک ملی ہو۔

اسی طرح جب جبل احد جہاں غزوہ احد ہوئی تھی، تو مستنصر حسین تارڑ صاحب کو اس غار یا کھوہ کی جستجو تھی جہاں آپ ﷺ کو زخمی ہونے کے بعد احد پہاڑ پر ذرا بلندی پر ایک کھوہ میں لے آئے تھے۔ اسی کھوہ کی طرف تارڑ صاحب کو ایک عربی شیخ ملتا ہے جو یہ بتاتا ہے : ”اندر میرے رسول کی خوشبو ہے۔“ ۔ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ”۔ احد کے ان پتھروں میں ہوں جن میں نبی کا خون جذب ہوا تھا، میں ان کی قسم کھا کر کہتا ہوں“ کھوہ کے اندر میرے رسول کی خوشبو ہے ”سے بڑھ کر یا برابری کا کوئی فقرہ ایسا اثر انگیز میں نے زندگی بھر نہیں سنا اور نہ امکان ہے کہ کبھی سن پاؤں گا۔“

یہ سفرنامہ متعلقات رسول (ﷺ) سے نسبت جوڑنے کی سعی ہے اور شب بیداری معاملات رسول سے عملی تعلق کی تشکیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).