لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی قبر بھی ثابت ہو سکتا ہے


اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں نا اہلی کے بعد عمران خان کو فوری ریلیف دینے سے گریز کیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالہ سے رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ کوئی عدالت کسی غیر تحریری حکم پر اور تفصیلی فیصلہ سامنے آئے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔ عدالت اگرچہ تین روز بعد اس معاملہ پر غور کرے گی جب الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ دستیاب ہونے کا امکان ہے۔ البتہ یہ مختصر مدت عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاست کے لئے فیصلہ کن ہو سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے تحریری تفصیلی فیصلہ کے بغیر ہی عمران خان نے اپنے وکیلوں کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے فوری ریلیف لینے کی کوشش کی تھی۔ جمعہ کو الیکشن کمیشن کی طرف سے نا اہلی کا فیصلہ آنے کے بعد سے تحریک انصاف کے لئے یہ دوسری ناکامی سمجھی جا سکتی ہے۔ پہلی ناکامی فوری احتجاج کی کال تھی جو اکثر رپورٹس کے مطابق کامیاب نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف عمران خان کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اگر کسی بھی طرح سے عمران خان کو گرفتار کرنے یا ان پر کوئی ’وار‘ کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان میں طوفان برپا ہو جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے نا اہلی کے فیصلہ کو ایسا ہی ’حملہ‘ قرار دے کر تحریک انصاف کے لیڈروں نے اپنے حامیوں سے فوری طور پر گھروں سے نکلنے اور احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن مظاہروں میں لوگوں کی ناقابل ذکر شرکت کی وجہ سے عمران خان کو خود ایک ویڈیو پیغام میں احتجاج روکنے کی ’اپیل‘ کرنا پڑی۔ اسے تحریک انصاف کی پسپائی سمجھا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کے لیڈر فواد چوہدری جو پہلے اپنی پارٹی کا سخت گیر چہرہ سامنے لانے کے لئے ’دیوار پھلانگ‘ کر الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے تھے، اور ناموافق فیصلہ سامنے آنے پر فوری احتجاج کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر نکل کر حکومت کا ناطقہ بند کرنے کی باتیں کرتے رہے تھے۔ احتجاج ختم کرنے کو ’حکمت عملی‘ کا حصہ بتاتے ہوئے یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ پارٹی نے لانگ مارچ کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ اس لئے وہ اپنے کارکنوں کی انرجی فوری احتجاج میں ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ وہ ان اطلاعات کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ عمران خان کی نا اہلی کی خبر سامنے آنے کے بعد پارٹی کی توقعات کے مطابق عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نہیں نکلی جس سے پارٹی کو مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کسر لانگ مارچ کے دوران پوری کرلی جائے گی۔

لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بلند بانگ دعوے کر رکھے ہیں۔ اس دعوؤں کی گونج اس حد تک بلند ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی کسی غیرمعمولی صورت حال سے نمٹنے کی تیاریاں کی ہوئی ہیں اور اسلام آباد پولیس کسی بڑے احتجاج سے نمٹنے کے لئے مورچہ بند ہے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ رانا ثنااللہ کی کوئی رکاوٹ ان کے پرجوش حامیوں کا راستہ نہیں روک سکے گی اور وہ لانگ مارچ کی کال دینے کے بعد اسلام آباد کو ’فتح‘ کر کے ہی سکھ کا سانس لیں گے۔ تاہم مئی کے آخر میں ناکام لانگ مارچ کا سبق بھی عمران خان کو خوب اچھی طرح یاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس بار اپنے براہ راست نائبین کی باتوں پر اعتبار کرنے کی بجائے پارٹی کی علاقائی تنظیموں کے عہدیداروں سے خود ملاقاتیں کر کے ان کی ڈیوٹی لگا رہے ہیں کہ کس عہدے دار نے کتنے لوگ جمع کرنے ہیں۔

انہی انتظامات کے بارے میں عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کے بارے میں کسی کو بھی مطلع نہیں کیا۔ پھر بھی شاید عمران خان خود بھی اپنی اس تگ و دو کی کامیابی کے بارے میں سو فیصد مطمئن نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ کا ہوا دکھانے کے باوجود بار بار اس کا اعلان کرنے کی تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے۔ اب جمعرات یا جمعہ کے روز لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

تاہم ماضی کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس بار بھی بات وعدہ فردا پر ٹال نہیں دی جائے گی۔ عمران خان ایک اور لانگ مارچ میں ناکامی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پرجوش و بلند آہنگ وعدوں کی گونج میں لانگ مارچ جسے ’حقیقی آزادی کے لئے جہاد‘ کا نام دیا گیا ہے، سے پیچھے ہٹنے کا کوئی بھی فیصلہ سیاسی طور سے شدید نقصان دہ ہو گا۔

اگرچہ عمران خان کے جان نثاروں اور حامیوں کے بارے میں عام طور سے محسوس کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے کسی بھی ’یوٹرن‘ سے پریشان نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے کسی جھوٹ کا پردہ فاش ہونے پر بدحواس ہوتے ہیں یا کوئی جائز سوال اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ کہ عمران خان سیاسی بیان بازی میں قلابازیاں کھانے اور موقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جب آڈیو لیکس میں خود ہی ان حرکتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں جن کا الزام وہ ملک کے ’چور لٹیرے‘ سیاست دانوں پر عائد کرتے رہے ہیں، تو بھی انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اسے وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی اور قومی سلامی کا معاملہ بنا کر خفیہ ایجنسیوں پر نشانہ بازی کا شوق پورا کرنے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب انہی اداروں سے درپردہ بات چیت کا اعتراف بھی کر رہے ہیں جنہیں وہ اپنی حکومت کے زوال کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس کڑوی گولی کو نگلوانے کے لئے انہوں نے گزشتہ روز اس بات چیت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ گرہ بھی لگائی ہے کہ ’ان مذاکرات سے کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے‘ ۔

تاہم ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں جمع ہو کر کسی بھی لیڈر کی سیاسی راست گوئی پر اثر انداز ضرور ہوتی ہیں۔ لانگ مارچ کے سلسلہ میں دعوے، پھر عسکری قیادت سے امداد کی اپیلیں اور ہر معاملہ عوام کے سامنے رکھنے کے دعوے کرنے کے بعد اب خفیہ ملاقاتوں کا اعتراف، ایسے ہی معاملات ہیں جن سے کسی سیاسی لیڈر کا اعتبار کم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔

ان عوامل میں الیکشن کمیشن کی طرف سے نا اہلی کے فیصلہ نے اضافہ کیا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا معاملہ ہے کہ وزیر اعظم کے طور پر عمران خان نے اپنی آمدنی کا ایک معمولی حصہ الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئی معلومات میں شامل نہیں کیا تھا۔ لیکن ایک تو یہ ’آمدنی‘ ایک مشکوک اور قابل اعتراض طریقہ سے حاصل ہوئی تھی۔ یعنی غیر ملکی سربراہان جو تحفے وزیر اعظم پاکستان کو دیتے رہے، عمران خان نے اصل قیمت کا 20 فیصد ادا کر کے ان تحفوں کو ذاتی ملکیت سمجھ لیا اور نہیں عام مارکیٹ میں فروخت کر کے کروڑوں روپے کما لئے۔

اس طریقہ کار پر جو بھی حجت دی جائے لیکن ملک کے وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کو عام مارکیٹ میں بیچنے کی روایت انتہائی افسوسناک اور ملک و قوم کے لئے شدید شرمندگی کا سبب بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب توشہ خانہ کیس کی بنیاد پر عمران خان کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دیا تو اسے اتنی بڑی ہزیمت سمجھا گیا کہ تحریک انصاف ملک بھر میں ’آگ لگا دینے‘ پر آمادہ دکھائی دیتی تھی لیکن عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ یہ جوش و جذبہ سرد پر گیا۔ اسی لئے ویک اینڈ کے دوران میڈیا پر باتوں کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا گیا تھا کہ سوموار کو اس فیصلہ کو عدالت سے ختم کروا لیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے البتہ اس معاملہ میں تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاسی معاونت کرنے سے انکار کیا ہے۔ عمران خان اور ان کے وکلا کو بخوبی علم ہو گا کہ الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ سامنے آئے بغیر کسی عدالت میں اسے چیلنج کرنا بے سود ہو گا کیوں کہ کوئی عدالت تب ہی کسی معاملہ پر غور کر کے کوئی رائے بنا سکتی ہے جب اس کے سامنے کوئی تحریری حکم یا فیصلہ موجود ہو۔ بیرسٹر علی ظفر البتہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے یہی دلیل پیش کرتے رہے کہ الیکشن کمیشن کے حکم کو معطل کیا جائے تاکہ عمران خان کا اعتبار بنا رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس سیاسی کھیل میں حصہ دار بننے سے گریز کیا۔

عمران خان کو خبر ہے کہ وہ جو ہتھکنڈے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد انہیں اب ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے تحریک انصاف کے اسی خوف کو حقیقت میں بدلتے ہوئے عمران خان کے بارے میں ’مستند چور‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ۔ حالانکہ پاکستان کی سیاسی لغت میں ناپسندیدہ الفاظ کے استعمال سے ہی سیاسی بدگمانیوں اور تلخیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نا اہلی کے حکم کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ آنے میں تاخیر عمران خان کی سیاسی شہرت کے لئے مشکلات کا سبب بنے گی۔ اس دوران اگر فارن فنڈنگ کیس یا کسی دوسرے معاملہ میں بھی عمران خان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس مشکل میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

ان تمام مشکلات سے نکلنے کے لئے عمران خان کو فی الوقت لانگ مارچ واحد آپشن دکھائی دیتا ہے لیکن اس احتجاج کے لئے تحریک انصاف کی تیاری اور پذیرائی کے حوالے سے جمعہ کو ہونے والے ’ناکام احتجاج‘ نے متعدد سوال کھڑے کیے ہیں۔ لانگ مارچ کے سلسلہ میں عمران خان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اسے ’حقیقی آزادی‘ جیسے غیر واضح اور مبہم نعروں سے کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ عوام سے اس لانگ مارچ کو تاریخی بنانے کی امید کی جا رہی ہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف ابھی تک انہیں یہ بتانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے کہ اسلام آباد میں چند لاکھ لوگ جمع کرنے کے بعد کیا ہو گا؟

عمران خان کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس ایسا کون سا ہتھکنڈا ہے کہ وہ حکومت کو نئے انتخابات کا فوری طور سے اعلان کرنے پر مجبور کر دیں گے؟ اس کے علاوہ لانگ مارچ سے پیدا ہونے والی بے چینی و بے یقینی ملکی معیشت کے لئے نقصان دہ سمجھی جا رہی ہے۔ عمران خان کو دوست دشمن یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اسمبلی میں واپس جاکر اپنی سیاسی حیثیت و پوزیشن کے مطابق کردار ادا کریں تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں مقابلے کے لئے تیا رہو سکیں اور ملک بھی کسی مزید مشکل کا شکار نہ ہو۔

عمران خان فی الوقت اس مشورہ کو سننے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ البتہ اگر لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد انہیں یہی فیصلہ کرنا پڑا تو ان کی سیاسی پوزیشن اور اور ذاتی مقبولیت و اعتبار کو شدید نقصان پہنچے گا۔ موجودہ حالات میں کیا گیا لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی قبر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments