شناخت کی غلطی


پہچاننے میں غلطی ہو جاتی ہے، ہوتا کچھ ہے سمجھتے کچھ ہیں، سایہء شاخ کو شاخ سمجھ لیتے ہیں اور سراب کو دریا، راہ زن کو راہ نما سمجھ بیٹھتے ہیں اور قاتل کو دل دار،آنکھ دھوکہ کھاتی ہے، دام میں الجھ جاتی ہے ، اللّٰھم ارنی حقیقۃ الاشیاء کما ھی’ (مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ کر) فریبِ نظر کا علاج ہی تو ہے ،یعنی شناختی غلطی سے بچنے کی دعا ۔

صحافی ارشد شریف کینیا میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہو گئے، کینیا پولیس نے کہا کہ ’Mistaken Identity ‘ کا کیس ہے،اور یہ کہ ارشد شریف کسی اغوا کے مجرم کے دھوکے میں مارے گئے ہیں۔ایسے معاملات میں تو اچھے خاصے مہذب ملکوں کی پولیس کے بیانات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، کینین پولیس کی بات کون مانے گا۔آثار کچھ اور بتاتے ہیں۔ رئیس امروہوی کو جب گولی ماری گئی تو ان کے چھوٹے بھائی جون ایلیا نے کہا تھا کہ قاتل میرے بھائی کا مرتبہ شناس تھا، اس نے رئیس بھائی کو دماغ میں گولی ماری تھی، بھائی اور تھے بھی کیا، دماغ ہی تو تھے۔ارشد شریف کو بھی سر میں گولی ماری گئی ہے۔کیا یہ شناختی غلطی کا کیس ہے؟ اب ہر طرف سے مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو اس قتل کی تحقیقات کرے، ضرور بنا ئیں کمیشن، ضرور کر یں تحقیقات، کچھ دن اس میں گزار لیجیے، نتیجہ کیا نکلے گا؟ قتل کے محرکات کا علم ہو جائے گا؟ پتا چل جائے گا یہ قتل کی سازش تھی یا حادثہ؟ ارشد نے ملک کیوں چھوڑا، ارشد کو دبئی سے ڈی پورٹ کرنے کا کس نے کہا، یہ سب معلوم ہو جائے گا؟ بات یہ ہے کہ پچھلے دس سال میں تقریباً ایک سو پاکستانی صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں، اور سب کے سب ’حادثاتی‘ طور پر ہوئے ہیں۔ ارشد بھی ایک صحافی تھا، اور ’حادثاتی‘ طور پر مارا گیا۔تو نیا کیا ہوا ہے؟

پہلے ایک بات کا جواب دیجیے، کیا سلیم شہزاد کو ’شناختی غلطی‘ کی بنا پر قتل کیا گیا تھا؟ کیا حامد میر کے جسم میں چھ گولیاں اتارنے والوں کوـ’Mistaken Identityـ‘ کا مسئلہ درپیش تھا؟ کمیشن تو اس وقت بھی بنائے گئے تھے، کیا نتیجہ نکلا تھا؟ ابصار عالم کو گولی مارنے والوں نے اچھی طرح شناخت کر کے گولی ماری تھی، عمر چیمہ اور احمد نورانی کو چُن کر، شناخت کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، کیا انکوائری ہوئی، کون سا مجرم پکڑا گیا؟ یہ ہے ہمارا تجربہ انکوائری کمیشنز اور کمیٹیوں کا، بہ صد خواہش بھی کہاں سے لائیں خوش گمانی، کیسے کریں مثبت رپورٹنگ۔ کوئی حرج نہیں یہ اقرار کرنے میں کہ ارشد شریف کی صحافت کے بیشتر پہلوئوں سے اتفاق کرنا ہمارے لیے دشوار رہا ہے، بالخصوص خاکی پہلو سے، مگر اس حقیقت سے کیا مفر ہے کہ صحرائے لا حدودمیں نووارد سہی، وہ ایک صحافی تھا۔اور ہمارا مسئلہ بہت صاف اور سیدھا ہے،’ کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو، ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں۔‘

ارشد شریف کی لاش وطن پہنچنے سے پہلے ہی اپنی جبلت سے مجبور سیاسی گدھ فضا میں منڈلانے کاآغاز کر چکے تھے، لاشیں سیاسی تحریکوں کو مہمیز دیا کرتی ہیں، سو عمران خان نے ارشد کی تدفین سے پہلے ہی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا، خان صاحب کو غالباً یوں لگا ہو گا کہ ارشد کی میت ان کو وہ مومینٹم فراہم کر سکتی ہے جس کی انہیں بہت دنوں سے تلاش تھی۔ عمران خان کا اصرار ہے کہ ارشد شریف کو قتل کیا گیا ہے، ویسے کریمنالوجی کی رو سے مجرم تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بھی ہوتا ہے کہ غور سے جائزہ لیا جائے کہ قتل کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے، قتل کی ٹائمنگ کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ یہ مخصوص وقت کیوں چُنا گیا۔عین اُس وقت جب شہباز شریف سعودیہ کے شاہی خاندان سے پاکستان کے معاشی استحکام اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کر رہے تھے، عمران خان ارشد شریف کی لاش کے کاندھے پر سوار لانگ مارچ کا اعلان کر رہے تھے۔اگلے ہفتے وزیرِ اعظم چین کا انتہائی اہم دورہ کرنے والے ہیں، غالباً عمران خان کا لانگ مارچ اس وقت اپنے جوبن پر ہو گا، اس وقت پاکستان کے کروڑوں لوگوں کا اولین مسئلہ معاشی عدم استحکام ہے اور لانگ مارچ ملک میں معاشی وسیاسی افراتفری کا سب سے مجرب نسخہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، نومبر کے مہینے میں ایک تعیناتی نے عمران خان کو بے قرار کر رکھا ہے، وہ اپنے سیاسی مستقبل کو اس تعیناتی سے منسلک کر بیٹھے ہیں، اگر خان صاحب کا اصرار ہے کہ ارشد کو قتل کیا گیا ہے تو پھر ان عوامل کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اب ذرا شناختی غلطی کے ایک اور سبق آموز واقعے کا تذکرہ بھی ہو جائے، مقتدرہ کے سرخیل نے پروجیکٹ عمران کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، کہتے ہیں ہم نے بٹھایا تھا اسے سنگھاسن پر مگر وہ نااہل نکلا، جسے ہم چاند سمجھے تھے وہ جگنو بھی نہیں نکلا، ایک فقرے میں آپ یوں سمجھ لیں کہ مقتدرہ نے جسے مسیحا سمجھا وہ بیمار نکلا،آپ اسے شناختی غلطی کہہ سکتے ہیں جس کی سزا پاکستان کے بائیس کروڑ عوام نے بھگتی ہے،اور یہ سزا ابھی تمام نہیں ہوئی، قوم کو لانگ مارچ کے لیے دوبارہ یاد فرمایا گیا ہے، عمران اور ان کے کوچ کو اپنی آخری لڑائی لڑنے کے لیے ـ ’حادثاتی‘ طور پر ارشد شریف کی لاش میسر آ گئی ہے، جس کی آڑ میں وہ اسلام آباد پر یلغار کرنے جا رہے ہیں، صاف نظر آ رہا ہے کہ عمران خان تہیہ کر چکے ہیں کہ اگر اقتدار ان کے حوالے نہ کیا گیا تو وہ اس نظام کو اُلٹا دیں گے۔

سر، آپ کی شناختی غلطی قوم کو بہت مہنگی پڑی ہے!

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments