بوسنیا کی چشم دید کہانی (17)۔


زغرب میں قیام کے دوسرے دن ہم نے بذریعہ ریل گاڑی ویانا کا رخ کیا۔ یہ کوئی چار گھنٹے کا سفر تھا۔ ہماری گاڑی شام پانچ بجے روانہ ہوئی۔ ریل براستہ سلوینیا، ویانا کی طرف رواں تھی۔ راستے میں جا بہ جا قدرتی مناظر اپنے حیران کن تناسب اور خوب صورتی کے ساتھ توجہ کا مسلسل مرکز بنے رہے۔ ذرا اندھیرا پھیلا تو ساتھیوں نے تاش نکال لی۔ مرزا اور میمن کو تاش سے ٹھرک کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ جتنی توجہ اس شوق کو دیتے تھے اس سے آدھی بھی اگر کبھی گوریوں کو دیتے تو ٹرے بینیا اور خاص طور پر شہر خرابی سرائیو میں بقول جالب ان کا طرز زندگی کچھ ایسا نہ ہوتا۔

ع۔ زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

مرزا نجف نے اپنے ایک انڈین ساتھی کے پاس موجود یورپ کی سیرو سیاحت پر ایک نہایت جامع کتاب سے بہت ابواب فوٹوکاپی کروائے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں یورپ کے اہم شہروں کے بارے میں تمام بنیادی معلومات درج تھیں۔ جن میں ہمارے لیے سب سے کارآمد سستی رہائش گاہوں کے پتے اور فون نمبر تھے۔ گاڑی میں ویانا کے ایک طالب علم سے تھوڑی بے تکلفی ہو گئی۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے موبائل فون کے ذریعے دو رہائش گاہوں سے رابطہ کیا۔

دونوں مقامات سے ٹکا سا جواب ملا۔ طالب علم ہم سفر نے بتایا کہ چونکہ ویانا میں ٹورسٹ سیزن کا عروج ہے لہٰذا رہائش آسانی سے ملنا مشکل ہے۔ اس اطلاع پر کافی پریشانی ہوئی۔ اب اگلی صورت یہ تھی کہ ویانا پہنچ کر سستی رہائش گاہوں کے بجائے نسبتاً مہنگی رہائش گاہوں سے رابطہ کیا جائے۔ چنانچہ اسٹیشن پر پہنچتے ہی کچھ رقم تبدیل کروائی اور پھر فون کے سکے حاصل کر کے کرا یہ کے حساب سے درجہ بہ درجہ مختلف رہائش گاہوں سے رابطہ شروع کیا۔

کافی کوشش کے بعد آخر کار ایک جگہ سے مثبت جواب مل گیا۔ یہ شہر کے وسط میں واقع ایک Pansion تھا جس کا

کرا یہ فی کس 35 ڈالر یومیہ تھا۔ یہ کرا یہ اگرچہ اپنی اس مد میں مختص کی گئی رقم کا دوگنا تھا لیکن سردست اس فضول خرچی سے بچنے کی اور کوئی صورت نہ تھی۔ چنانچہ ہم نے سامان اٹھایا اور ریلوے اسٹیشن کے باہر بس سٹاپ تک آ گئے۔ یہاں سے A۔ 57 نمبر بس نے ہمیں اپنی منزل مقصود تک پہنچانا تھا۔ کوئی دس منٹ کے انتظار کے بعد یہ بس آ گئی اور ہم اس میں سوار ہو کر پچھلی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔

بس میں پہلے سے ایک سردار جی بھی سوار تھے۔ انھوں نے تعارف میں پہل کی اور ویانا آنے کی وجہ پوچھی۔ ہم نے جب اپنا تعارف ٹورسٹ کے طور پر کروا یا تو وہ کچھ بجھ سے گئے۔ بولے میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ لوگ بھی اپنے بیلی ہوں گے اور یہاں روزگار کی تلاش میں آئے ہوں گے۔ لیکن آپ کا معاملہ تو دوسرا نکلا۔ بہر حال انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے چار پانچ سال سے یہاں مقیم ہیں۔ ائرپورٹ پر ٹرالیاں جمع کرنا ان کا کام ہے اور رہائش دھرم شالہ میں رکھتے ہیں۔

انھوں نے ہمیں اپنا مہمان بننے کی دعوت دی لیکن ہم نے شکریے کے ساتھ معذرت چاہی۔ ہم نے انھیں بتایا کہ رہائش کا بندوبست ہو گیا ہے، اب ہم اس طرف روانہ ہیں۔ ان کے پوچھنے پر جب کرایہ بتایا تو سخت ناراض ہوئے اور بولے خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے چلے ہو، بہتر نہیں کہ میری پیش کش پر غور کرو۔ ہم نے ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل کہ وہ اپنی پیش کش کا ایک بار پھر اعادہ کرتے ان کا سٹاپ آ گیا اور وہ بس سے اتر گئے۔ بس کے اگلے حصہ میں ایک چھوٹی سی سکرین لگی ہوئی تھی جس پر ہر اگلے سٹاپ کا نام لکھا ہوا ابھرتا تھا اور ساتھ ہی اس نام کا سپیکر پر اعلان بھی کیا جاتا۔ کچھ ہی دیر بعد اس سکرین پر ایک نام ابھرا ساتھ ہی موسیقی بکھیرتی نسوانی آواز گونجی ’برگاسی‘ ۔ یہی ہماری منزل تھی۔

”جب 1683 ء کی جنگ میں فتح کے بعد ویانا کو دوسرے عثمانی محاصرے سے نجات دلائی گئی تو دشمن کی بہت سی توپیں فاتح فوج کے قبضہ میں آئیں۔ ان توپوں کو ڈھال کر مشہور گھڑی ساز Johann Achamer نے ایک گھڑیال بنایا جو شبانہ روز محنت کے بعد 21 جولائی 1711 ء کو مکمل ہوا۔ اس کا وزن 22.5 میٹرک ٹن تھا اور اس پر 19400 فلورن لاگت آئی۔ اسے سینٹ سٹیفن چرچ کے بشپ رومیل نے 15 دسمبر 1711 ء کو اس کے 415 فٹ بلند مینار میں نصب کیا۔

26 جنوری 1712 ء کو پہلی بار اس کی ٹن ٹن ویانا کی فضاؤں میں اس وقت گونجی جب رومن شہزادے چارلس چہارم نے فرینکفرٹ میں تاج پوشی کے بعد ویانا میں قدم رکھا۔ یہ گھڑیال آخری بار 1937 میں ایسٹر کے تہوار کے موقع پر گرجتے ہوئے بجا اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے اس چرچ کو کھنڈر اور گھڑیال کو ناکارہ کر دیا۔ 5 ستمبر 1951 ء کو اس کی ساخت نو کا آغاز ہوا۔ اسے 26 اپریل 1952 ء کو چرچ کے صحن میں نصب کیا گیا۔ پھر اکتوبر 1957 ء میں اپنی موجودہ جگہ یعنی چرچ کے شمالی مینار میں تقریباً 210 فٹ کی بلندی پر نصب کر دیا گیا۔ تب سے آج تک اس کی گمبھیر آواز خصوصی مواقع پر ویانا کے طول و عرض میں گونجتی ہے۔“

یہ وہ تعارفی پرچہ تھا جو اس چرچ میں داخلے کے وقت سیاحوں میں بانٹا جاتا ہے۔ یہ چرچ ویانا کے مرکز کے غربی سرے پر ایک کھلی جگہ کے وسط میں واقع ہے۔ اس کے باہر ہر وقت سیاحوں کا ایک ہجوم پایا جاتا ہے۔ جو یا تو چرچ کو دیکھنے کے بعد باہر آ رہے ہوتے ہیں یا پھر اندر جانے کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سیاحوں کے قدموں میں بہت سے کبوتر غٹر غوں، غٹر غوں کرتے ادھر ادھر پھدک رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف قطار میں بہت سی بگھیاں کھڑی پائی جاتی ہیں جو سیاحوں کو اندرون شہر کی سیر کرواتی ہیں۔ کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہابز برگ کے شاہی خادموں اور خادماؤں سا لباس پہنے ویانا کے مختلف اوپیراز میں اس کے عظیم موسیقاروں کی یاد تازہ کرنے والی شام کے ٹکٹ فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔

ویانا کا یہ گرجا گھر جس میں نصب شدہ گھڑیال مغربی یورپ کے گرجا گھروں میں نصب شدہ گھڑیال میں حجم کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آتا ہے، بلاشبہ فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ بڑے ہال میں بلند دیواروں پر سنگ مرمر کی سلوں کو تراش کر ابھارے گئے مجسمے کسب کمال کی انتہا ہیں۔ گرجا کا یہ ہال کچھ اس انداز سے سیاحوں کے ہجوم کی زد میں تھا کہ پورا قدم اٹھانا مشکل تھا۔ عیسائی زائرین کی بڑی تعداد عقیدت کے اظہار کے طور پر گرجا میں موجود چھوٹی چھوٹی خوش بو دار موم بتیاں خرید کر جلا رہی تھی۔ یہ گرجا کا ایک نیم تاریک گوشہ تھا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں ٹمٹماتی ہوئی یہ موم بتیاں ایک پراسرار سا ماحول پیدا کر رہی تھیں۔

وہ گھڑیال جس کی تاریخ گرجا میں داخل ہونے پر ایک تعارفی پرچے کے ذریعے بیان کی گئی تھی، اس کا نظارہ کرنے کے لیے سیاح شمالی مینار کے نیچے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ ہم بھی اسی قطار میں شامل ہو گئے اور اپنی باری آنے پر ٹکٹ حاصل کر کے مینار کی بلندی تک پہنچ گئے۔ گھڑیال اب بالکل ہمارے سامنے تھا۔ میں اس گھڑیال کو کوشش کے باوجود کچھ زیادہ اشتیاق سے دیکھنے کو راغب نہ ہو سکا کہ اس کے تعارف کی ابتدا اس کے وجود میں آنے کے بیان میں جو حوالہ جس انداز سے دیا گیا تھا وہ مجھ گئے گزرے مسلمان کو بھی ناگوار گزرا تھا۔

ہم سینٹ سٹیفن کے گرجا گھر سے باہر نکلے تو ہلکی تپش والی چمکتی دھوپ میں گرجا سے کچھ فاصلے پر موجود کیفے باروں کے باہر کھلی فضا میں سجی کرسیوں نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ کپاچینو کافی کا آرڈر دینے کے بعد مرزا صاحب نے اپنی کتاب کھولی اور کسی ایسے مقام کی تلاش شروع کی جو قریب بھی ہو اور اہم بھی۔

نظر انتخاب موزارٹ میوزیم پر آ کر ٹھہر گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments