حاتاری اور ارشد شریف


ہم ان خوش نصیب بچوں میں سے ہیں جنہوں نے بچپن سے ہی انگریزی فلمیں اپنے والدین کے ساتھ دیکھیں۔ حالانکہ یہ 60 کی دہائی کی بات ہے جب بچوں کا فلم دیکھنا، چہ جائیکہ والدین کے ساتھ دیکھنا تو بہت ہی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہ سن 63 ء۔ 64 ء کی بات ہوگی جب کراچی کے سنیما گھر میں ایک انگریزی فلم ”حاتاری“ کے نام سے نمائش پذیر ہوئی۔ یہ فلم ایک ایسے جانوروں کے شکاریوں کے گروپ کے بارے میں تھی جو افریقہ کے جنگلوں سے جانوروں کو پکڑ کر دنیا کے مختلف ممالک کے چڑیا گھروں کو فروخت کیا کرتے تھے۔

اس فلم میں تقریباً افریقہ میں پائے جانے والے تمام جانوروں مثلاً شیر، چیتا، گینڈا زرافہ اور زیبروں کو پکڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا ہمیں اس وقت بالکل پتہ نہیں چلا کہ حاتاری کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ کینیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کی گئی تھی جو اس زمانے میں ایسٹ افریقہ کہلاتا تھا اور برطانوی راج کا حصہ تھا۔ ہمیں ہمیشہ سے جانوروں سے ایک خاص دلچسپی اور انسیت رہی ہے خوش قسمتی سے ہمارے کاروبار کی نوعیت اس طرح کی رہی کہ ہم بڑے تواتر سے دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے۔

کاروباری نوعیت کے سفر میں آدمی کو بہت کم موقع ملتا ہے کہ وہ ان ممالک کے شہروں میں سیر و تفریح کر سکے لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم کچھ وقت نکال کر اس شہر کے چڑیا گھر کو دیکھ لیا جائے۔ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی چلی گئی اور ہم پچاس کا ہندسہ عبور کر گئے تو بہت شدت سے یہ احساس ہوا کہ چڑیا گھر میں جانوروں کو اس طرح قید کرنا انتہائی ظالمانہ فعل ہے اور ہم نے چڑیا گھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا وہ کہتے ہیں نا شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے اتفاق سے ایک کاروباری سلسلے میں ہی ہمارا کینیا جانے کا پروگرام بن گیا افریقہ کے جنگلوں میں آزاد پھرتے ہوئے مختلف جانور اور بچپن میں دیکھی ہوئی حاتاری فلم کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے اور ہم نے منصوبہ بنایا کہ کینیا میں اپنی کاروباری مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد کم سے کم ایک ہفتہ کینیا کی سفاری کی سیر کرنے کے لیے مختص کر دیں گے کیونکہ سفاری میں تو جانور آزاد پھر رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ افریقہ میں بالعموم اور کینیا میں بالخصوص امن و امان کی صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اس لئے وہاں پہنچ کر محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی اور اپنی نقل و حرکت بھی محدود رکھنی ہوگی۔ قصہ مختصر ہم کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچ گئے۔ وہاں ہم نے نوٹ کیا کہ تمام عوامی اور سرکاری عمارات پر اور بڑے نجی مکانات کی دیواروں پر خار دار تار لگے ہوئے ہیں اور ان پر جابجا تختیاں لگی ہوئی ہیں جن پر حاتاری ”Hatari“ لکھا ہوا ہے۔

ہمارے دماغ میں بچپن میں دیکھی ہوئی فلم حاتاری گھوم گئی، ہم نے فوراً اپنے میزبان سے پوچھا کہ ان دیواروں کے اوپر تاروں پر جا بجا حاتاری کیوں لکھا ہوا ہے اور اس کا کیا مطلب ہے۔ اس نے ہم کو بتایا کہ دراصل یہ سواحلی زبان کا لفظ ہے جو کینیا اور اس کے متعلقہ علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جس کا مطلب ”خطرہ“ ”خطرناک“ ”Danger“ اور ”Dangerous“ ہے۔ یہ تختیاں اس لئے لگائی گئی ہیں کہ دیوار میں لگے ان تاروں میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے جو چوروں، ڈاکوؤں اور سماج دشمن عناصر کے لیے ایک انتباہ ہے۔

کہتے ہیں ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں خطرہ لاحق تھا اس لئے انھوں نے پاکستان چھوڑ دیا۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ارشد شریف نے پناہ لینے یا جان بچانے کی خاطر پاکستان سے بہت زیادہ خطرناک علاقے کا انتخاب کیوں کیا اور وہ علاقہ جہاں ان کو گولی مار کر قتل کیا گیا وہ کینیا میں ڈرگ مافیا کا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو کسی بھی جیتے جاگتے انسان کا قتل قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ لیکن کیا کہا جائے کہ ارشد شریف کے قتل کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ صورتحال پر اسرار ہوتی جا رہی ہے۔

ارشد شریف ایک صحافی تھے لیکن وہ ایسے ٹی وی چینل سے منسلک تھے جو چوبیس گھنٹے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے گن گاتا رہتا تھا اور ان کے مخالفین پر مغلظات کی بوچھاڑ کرتا رہتا تھا۔ اس لئے ان کو صحافی سے زیادہ پی ٹی آئی کا ایسا کارکن سمجھا جاتا تھا جو عمران خان کے ہراول دستے کا حصہ تھے۔ ان کو نام نہاد ففتھ جنریشن وار کا شہید بھی کہا جا سکتا ہے۔ اب پی ٹی آئی کے ایک عہدے دار نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے یہ انکشاف کیا ہے کہ ارشد شریف کو باہر بھیجنے والا ہی اس کے قتل میں ملوث ہے۔

جبکہ اس سے پہلے عمران خان یہ کہ چکے ہیں کہ میرے کہنے پر ہی ارشد شریف باہر گئے تھے۔ اس طرح انھوں نے بالواسطہ طور پر ارشد شریف کے قتل کا الزام عمران خان پر لگا دیا ہے۔ اب مبینہ طور پر یہ بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ ارشد شریف کو باقاعدہ خوف زدہ کر کے پاکستان سے باہر بھجوایا گیا اور پھر عمران خان کے ایک حامی چینل کے کارپردازوں نے ان کو کینیا بھجوا دیا اور وہ تقریباً تین مہینے سے کینیا میں کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ رہ رہے تھے جن کے کاروباری معاملات بھی خاصے پر اسرار تھے۔

بہرحال حکومت پاکستان نے بھی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو کینیا بھی جائے گی۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی اور افسانہ طرازی کا خاتمہ ہو گا۔ مزید براں مستقبل میں ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جس میں کسی دیوار پر بھی حاتاری کی انتباہی تختی نصب کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments