شیریں گفتار


صباحت کو آج علی الصبح کالج شاید جلدی جانا تھا، اس لئے وہ معمول سے پہلے ہی ناشتہ تیار کرنے کچن میں گھس گئی۔ وہ کالج میں اردو کی لیکچرار ہونے کے کے ساتھ ساتھ کالج کی ادبی سرگرمیوں کی بھی روح رواں تھی۔ اسی سلسلے میں آج محفل شعر و سخن کے نام سے کالج میں ایک تقریب تھی، جس میں شہر کے مشہور شعرائے کرام مدعو تھے۔ صباحت کا کیا تعارف کروایا جائے کہ خوشبو اپنا تعارف آپ ہوتی ہے، تاہم گورا رنگ، دراز قامت، آنکھوں میں شوخی، شیریں سخن، چال میں متانت، طبیعت میں نفاست، پرکشش شخصیت اس پہ جاذب نظر پیراہن کی بدولت وہ حسن و جمال کا ایک ایسا حسین امتزاج تھی، جو اسے ہر محفل میں سب سے ممتاز رکھتا تھا۔

وہ جب بھی کسی محفل میں جاتی وہاں ہزار خوبرو چہروں اور پری پیکر وجودوں کے ہونے کے باوجود بھی ہر نگاہ کا مرکز بن جاتی تھی، گویا وہ ایک چودھویں کا چاند تھا جس کے طلوع ہوتے ہی ستاروں کا وجود گہنا جاتا تھا۔ جس نے اسے ایک بار دیکھا وہ بیخودی کی مستی میں اس حد تک گم ہوا، کہ ہوش و حواس گم کر بیٹھا، اور بس اسی کا ہو گیا۔ کوئی کتنا بھی اپنے آپ کو روک لے مگر ایک بار جو نگاہ اس کے چہرے پر ٹکی، تووہ اس کے حسن و جمال کی اسیر ہو گئی۔

پھر وہ اس کے سراپے کے خد و خال اور اور آنکھوں کی شوخی سے کبھی بھی اپنے آپ کو سیراب نہ پاتا۔ تاہم دنیا کے تمام انسانوں کی طرح اس کے اندر بھی ایک کمزوری تھی اور اس کی کمزوری تھی شیریں گفتاری۔ گویا اگر کوئی شخص شیریں گفتار اسے مل جاتا، یا اس کی آواز صباحت کے کانوں میں پہنچ جاتی تو وہ دنیا جہاں سے بے خبر ہو کر اس کی گفتگو سننے کو بے تاب ہوجاتی۔ وہ بذات خود بھی شیریں سخن تھی، تاہم ہر بار یہ تمنا کرتی تھی کہ کوئی ایسا شیریں سخن اسے میسر آئے، جس کی آواز کے ساتھ وقت تھم جائے اور کائنات میں بہار ہی بہار ہو جائے۔ تاہم ابھی تک ایسا کوئی سخن ور وہ ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی۔

وہ بھاگم بھاگ پسینے میں شرابور، چہرے پہ ہلکی سی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کے ساتھ جونہی کالج کے گیٹ پر پہنچی تو وہاں ایک چالیس برس کا منحنی قد کا مرد، ہاتھ میں ڈائری پکڑے، بکھرے بالوں، بڑھی ہوئی شیو، معمولی لباس کے ساتھ سگریٹ کا دھواں فضا میں ایک مخصوص انداز میں چھوڑ کر پھر اس کو یوں دیکھ رہا تھا، گویا وہ کسی کے چہرے کو دھوئیں کے بادلوں میں ڈھونڈ رہا ہو۔ کثرت سگریٹ نوشی کے سبب اس کے لبوں پر دھوئیں کی کالک پوری طرح جم چکی تھی، اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اس کی جاگتی راتوں کی گواہی دیتے تھے۔

کیونکہ شہر میں اس کا ورود ابھی تازہ تازہ ہوا تھا، لہذا بہت کم احباب سے اس کی رسم و راہ تھی اور صرف ایک خاص حلقہ ہی اس کے فن سے آشنا تھا۔ کالج پہنچنے والی تقریباً ہر خاتون ایک نظر اس شخص کو سر تا پا ضرور دیکھتی تھی، مگر وہ ان کی نگاہوں اور ان کے چہرے کے تاثرات سے بے نیاز، سگریٹ کا کش پہ کش لگائے سامنے کی دیوار پہ بنے نقش و نگار کو دیکھنے میں مگن تھا، جو کسی ہندو دیوی کے معلوم ہوتے تھے شاید کسی نے حسن کی دیوی کی پینٹنگ بنائی ہوگی۔ یہ نقش و نگار کسی فنکار کی ہنر مندی اور چابک دستی کا نشاں تھے، مگر اب بارش کے پانی کے نشانات، کائی کی دبیز تہہ اور قدامت کی وجہ سے اس قدر دھندلا چکے تھے کہ آسانی سے دکھائی بھی نہیں دیتے تھے۔ صباحت نے بھی ایک نظر اس شخص کو دیکھا اور پھر اندر ہال میں چلی گئی، جہاں آج کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

” ارے صباحت! تم نے آج کالج کے باہر اس عجیب سی مخلوق کو دیکھا تھا“ میڈم انجم ہال میں مہمانوں کی نشستوں کے آگے ان کے ناموں کی نیم پلیٹ رکھتے ہوئے مخاطب ہوئیں۔ ”عجیب سی مخلوق؟ آپ کس کی بات کر رہی ہیں میم؟“ صباحت نے میز پر پھولوں کو قرینے سے سجاتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ”ارے تم نے کالج کے گیٹ پہ ایک عجیب سے حلیے والے شخص کو نہیں دیکھا، جو وہاں سگریٹ کا دھواں اڑائے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کیسی وحشت تھی اور چہرے سے کیسا خوف آتا تھا۔ توبہ ہے بھئی۔“ میڈم انجم نے اس شخص کے بارے میں بتایا، جو گیٹ کے باہر ڈائری لیے کھڑا تھا۔ اور میڈم کے منہ سے یہ الفاظ سن کر صباحت بے اختیار اس قدر ہنسی کہ وہیں بیٹھ گئی اور زیادہ ہنسنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔

وقت مقررہ سے پہلے ہال طالبات سے کھچا کھچ بھر چکا تھا اور شور کے سبب کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ وہ سب آپس میں ملی جلی گفتگو کر رہی تھیں۔ کسی کے ہاں آج کی محفل موضوع سخن تھی، تو کسی کو اپنے آج کے کلاس ٹیسٹ کی فکر ستائے جا رہی تھی۔ تاہم وہ سب پڑھائی کے ماحول سے کچھ دیر کے لئے نکل کر یہاں آنے پر بہت خوش تھیں۔ تھوڑی دیر میں شعرائے کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، اور وہ شخص بھی دیگر شعراء کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا۔

اس کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر صباحت نے میڈم انجم کو آنکھ کے اشارے سے متوجہ کیا۔ ”یہ بھی شاعر ہے؟“ ایک لڑکی نے دوسری کے کان میں سرگوشی کی۔ ”بھائی فیس بک کا زمانہ ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ بس کسی کی بھی شاعری لو اور اپنے نام سے پڑھ دو کیا پتہ چلتا ہے“ دوسری نے جواب دیا جو اس شخص نے سن لیا تھا۔ تاہم اس نے ان کی طرف مطلق دھیان نہیں دیا بلکہ ایک نشست پر جا کر اسی بے نیازی کے انداز میں بیٹھ گیا۔

صباحت نے نظامت کے فرائض سنبھالے اور صدر محفل کی اجازت سے تقریب کا آغاز کیا۔ وہ شعرائے کرام کو ان کی باری پر دعوت سخن دے کر سٹیج پر بلاتی گئی اور شعرائے کرام اپنا کلام سنا کر حاضرین سے داد وصول کرتے گئے۔ ایسے میں صباحت نے مرزا مجروح کا نام جب پکارا تو ناواقف لوگوں نے ایک عجیب سی نظر کے ساتھ اس کو دیکھا کہ گویا یہ بھی کوئی شاعر ہے۔ تاہم وہ شخص اپنی نشست سے اٹھ کر سٹیج پر آیا اور ڈائس پر کھڑے ہو کے جب اپنا کلام سنانا شروع ہوا، تو صباحت اس کی آواز کی لوچ، شیرینی اور انداز بیاں کی وجہ سے اس قدر اس میں محو ہو گئی، کہ اس کا تخیل اسے کسی اور جہاں میں لے گیا۔

وہ شخص جیسے جیسے کلام سنا رہا تھا، صباحت کی نظروں کے سامنے اس کے چہرے پہ جمی ویرانی کی تہہ کے اوراق پرت در پرت ہٹتے چلے جا رہے تھے اور پھر صباحت کو آخری پرت کے ہٹنے کے بعد اس کا اصلی چہرہ دکھائی دینے لگا، جو بے حد حسین، اجلا اور بے داغ تھا۔ صباحت کے علاوہ دیگر حاضرین بھی مبہوت تھے، مگر صباحت کی دل کی دھڑکن اور بے چینی کسی اور ہی کیفیت کا پتہ دے رہی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ شخص صرف اسے ہی مخاطب کر کے، اپنا کلام سنا رہا تھا اور وہ ٹکٹکی باندھے اشتیاق اور عقیدت کے ساتھ اسے سن رہی تھی۔

اس کی آواز کا زیر و بم، لہجے کی شگفتگی، بانکپن، چہرے کے تاثرات، کچھ ایسے تھے کہ صباحت کو اپنا آپ تک اب بھول چکا تھا۔ وہ جو خود صیاد تھی اب کسی کے انداز بیاں کے دام میں آ کر، اپنا آپ اس وارفتگی سے لٹا چکی تھی، جس کا انسان کو مطلق کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ وہ شخص گویا اپنے کلام کی فصاحت اور اظہار بیاں کی طاقت سے ناوک فگن ہو کر صباحت کے دل کو ایسے مسخر کر رہا تھا کہ اس کی کیفیت گویا اب اس شعر کی مصداق تھی کہ

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں (مرزا رفیع الدین سودا)

صباحت پورے انہماک کے ساتھ تخیل کی دنیا میں محو پرواز ہو کر، اسے سنتی چلی جا رہی تھی۔ اسے ہوش اس وقت آئی جب میڈم انجم نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا۔ صباحت جب ہوش کی دنیا میں واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ سبھی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر اس شخص کے کلام کی داد رہے تھے، جس کی بابت کچھ دیر پہلے تک سب کو شک تھا کہ نا معلوم کیسا شاعر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments