غیر سیاسی فوج اور پراجیکٹ عمران!


‏طوفان آئے اور چُپ چاپ گُزر جائے، معاملات ایسے بھی نہیں۔ غیر معمولی حالات ہیں اور غیر معمولی واقعات۔ جو کچھ پردے پر چل رہا ہے اس سے کہیں زیادہ پردے کے پیچھے ہے۔ ناکام پالیسیاں اب بچے جَن رہی ہیں۔ رخصتی کے وقت پچھتاوے بازو پھیلائے دہلیز پر کھڑے ہیں۔

اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔

جنرل قمر جاوید باجوہ جا رہے ہیں۔۔۔ جاتے جاتے اپنے حصے کا سچ بتا رہے ہیں۔ الوداعی ملاقاتیں شروع ہیں، اُن کے جانے سے قبل البتہ غیر معمولی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

ادارے کے جملہ حقوق بحق آئین محفوظ کیے گئے ہیں یا کم از کم جاتے ہوئے جنرل باجوہ ایسی وراثت کا اعلان کر رہے ہیں جس کا اظہار ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم نے بھرپور پریس کانفرنس میں کیا۔ کیمروں کی چکا چوند روشنی میں غیر سیاسی ہونے کا اعلان محض سادہ اور آسان نہیں۔ ایسا کیونکر ہوا؟ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور انوکھا بھی۔

ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے مہارت کے ساتھ پراجیکٹ عمران کی ناکامی کی نہ صرف ذمہ داری لی بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ آئندہ ادارہ کسی طور سیاسی نہیں ہو گا۔

ادارے کا ماضی داغدار ہونے کا اعتراف بھی کیا اور آئندہ داغ اچھے نہیں ہوتے کا پیغام بھی پہنچایا، ادارے کے غیر آئینی کردار پر اظہار معذرت بھی کی اور آئین کی حدود میں رہنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ ادارہ آئینی بھی ہو گیا اور غیر سیاسی بھی۔۔۔ یقین البتہ آتے آتے آئے گا۔

ایسا کیسے ہو گیا؟ اس کا کریڈٹ کس کو جائے گا؟ ایک طرف آئین پسند شادیانے بجا رہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے ناخوش۔

یہ فیصلہ مجبوری تھا نہ ضروری البتہ جمہوری ضرور تھا۔ ادارہ اپنے پراجیکٹ سے اظہار لاتعلقی کر چکا ہے اور آئندہ کسی پراڈکٹ کو لانچ نہ کرنے کا اعلان بھی۔ آئی ایس آئی کے ’سیاسی ونگ کا خاتمہ‘ نہ کسی کی فتح نہ شکست ماسوائے آئین کی سربلندی کے۔۔۔ اب البتہ اس پر قائم رہنا بھی اصل چیلنج ہو گا کیونکہ یہ ویڈیو دستاویز سیاسی اور آئینی گیلری کا حصہ بن گئی ہے۔

حالات حاضرہ کی دنیا میں یہ غیر معمولی پریس کانفرنس لانگ مارچ کی گرینڈ لانچنگ کی نذر ہوئی تاہم اس لانگ مارچ کا آغاز ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف بیانیے سے ہی کیا گیا۔ گویا ‎جی ٹی روڈ پر بریکیں لگاتے عمران خان بضد ہیں کہ انھیں اب بھی ایسا ادارہ چاہیے جو فین کلب کا کردار زیادہ ادا کرے۔

اسٹیبلشمنٹ اپنے غیر سیاسی کردار سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو اور صرف آئینی کردار ادا کرے، یہ عمران خان صاحب کو کیوں منظور نہیں؟ جنرل باجوہ نے جانے کے فیصلے سے قبل فوج کو غیر سیاسی کیوں کرنا چاہا، جس کا شکوہ عمران خان کئی انٹرویوز میں کر چُکے، کہہ چکے کہ ملک لوٹا جا رہا ہو تو چوکیدار نیوٹرل کیسے رہ سکتا ہے۔

عمران خان دراصل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اُنھیں وزیراعظم بنانے والے جاتے ہوئے نگاہیں بدل لیں گے جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ ناکامیوں کی افزائش نسل کے بعد کیا۔

عمران خان نے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ انتخاب میں جنرل باجوہ سے مدد مانگی تھی تاہم جنرل باجوہ کے بقول حکومت کو اپنے مسائل خود طے کرنے کا درست مشورہ اُس وقت جنرل فیض نے دیا تھا مگر اپنی جماعت کو خود بچانے کا یہ مفت مشورہ بھی رائیگاں گیا اور نتیجتاً گھات میں لگی گھاگ سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں۔

بطور وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر اسلام آباد کے حساس ادارے کے میس میں جنرل باجوہ نے سیاسی قائدین کو ظہرانے پر انتخابات کے انعقاد سے مشروط تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی پیشکش کی جو سیاسی قائدین نے ٹھکرا دی۔

عمران خان

آنے والے حالات نے ادارے کو باور کرایا کہ فوج یا تو فرد واحد کی خواہش بن کر رہے یا اپنا آئینی کردار ادا کرے لہذا ادارے نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت تک ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی تو جواب انکار کی صورت ملا۔

سب تدبیریں الٹی ہونے کے بعد اب عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں، فوج سے مستقل مخاطب ہیں کہ وہ اُن کا ساتھ دے، یوں تو ادارہ جملہ حقوق آئین اور جمہوریت کے نام کر چکا ہے تاہم اصل آزمائش تب ہو گی جب عمران خان جنرل باجوہ کے خلاف ہر طرح کی زبان کی مشق کرتے ہوئے راولپنڈی پہنچیں گے۔

تو کیا راولپنڈی کی فخریہ پیشکش راولپنڈی میں ہی انجام پذیر ہو گی؟

آخری اطلاعات تک فوج عمران خان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے دروازے اب بند کر چُکی ہے۔ وزیراعظم نئے چیف کا اعلان نومبر کے تیسرے ہفتے میں کر سکتے ہیں، تب تک عمران خان صاحب جی ٹی روڈ پر ’اچھے دنوں‘ کی امید میں ماحول گرما سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments