کچھ کہہ سکتی ہوں؟


گھر کا بڑا بچہ سرمد بھاگتا ہوا دادی کے پاس آیا تھا۔ سرمد اے لیول کا ذہین طالب علم ہے جسے ملکی و عالمی سیاست سے گہری دلچسپی ہے جس کے حصول کے لیے وہ مختلف چینلز کو ہی نہیں دیکھتا بلکہ نیٹ سے اردو، انگریزی کے کالم بھی پڑھنے لگا ہے۔ اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔ میرے پاس بیٹھتے ہوئے مضطرب لہجے میں بولا۔

”دادو آپ جانتی ہیں کیا کہ اسلام آباد بنگلہ دیش کے پیسوں سے بنا تھا؟“

تڑپ کر میں نے اسے دیکھا یوں لگا جیسے کسی نے مجھے پچاس سال قبل کی ٹائم مشین میں دھکا دے دیا ہو اور میرے زخموں کے منہ کھل گئے ہوں۔ زہریلی آوازوں کی گونج میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا نے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا تھا۔

دادو آپ تو کہیں گم ہو گئی ہیں؟
تمہیں یہ کہاں سے پتہ چلا؟

یو ٹیوب کے ایک
The Pakistan Experience
پروگرام میں شہزاد غیاث شیخ اور خرم حسین بتا رہے تھے کہ 1965۔ 70 کے پانچ سالہ منصوبے کے ماہرین معیشت جو اس کمیشن رپورٹ کا حصہ تھے۔ ان کے بنگالی اراکین نے اپنی علیحدہ رائے اس پیپر میں شامل کی تھی جسے بعد میں ان رپورٹوں سے نکال کر تلف کر دیا گیا کیونکہ انھوں نے غیر جانبداری سے اعداد و شمار کا کچا چٹھا ان صفحات پر بکھیر دیا تھا جو مغربی پاکستانی اراکین اور حکمرانوں کو قبول نہ تھا۔

بچہ پریشان تھا کہ اب یہ سچ بول رہے ہیں۔ ماضی کی کرتوتوں پر سے پردے اٹھا رہے ہیں۔ تلخ حقائق سے نئی نسل کو آگاہ کر رہے ہیں۔ کہیں ان کا حشر بھی ارشد شریف جیسا نہ ہو۔

سرمد ایک بات یاد رکھو کہ سچ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو جتنا بھی چھپاؤ، جتنا بھی ڈھانپو یہ کسی ڈھیٹ مردے کی طرح کفن چھوڑ پتھر بھی پھاڑ کر باہر نکل آتا ہے۔

دل کی گہرائیوں سے شہزاد اور خرم کے لئے دعا نکلی اور ایک لمحے کو خیال آیا کہ دیکھو کیسے کیسے غاصب اور طالع آزما گزرے جنہوں نے سچ کے نشان مٹا دینے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے؟ ہر ایک کے منہ پہ پٹیاں لگا دیں۔ جن کے منہ بند نہ کر سکے ان جیالوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ لیکن اس سب کے باوجود سچ کا گلہ نہ گھونٹ سکے۔ آفرین ہے ان سر پھروں پر جو اپنی خو کے پکے نکلے کہ کتنا بھی جیر ہو سچ کو آشکار کر کے ہی دم لیں گے۔ کڑے وقت کے ان اندھیروں میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو ان دیوانوں کے ہی سبب ہے۔

تاہم دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے چارہ گروں اور کارسازوں کے رنگ ڈھنگ قطعی نہیں بدلے۔ وہی پرانی معجونیں اور منجن کتنی دیر آزمائیں گے۔ کب یہ سمجھیں گے کہ ظلم جبر عقوبتوں اور استبداد سے آپ لوگوں کا گلہ تو گھونٹ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے دلوں اور سوچوں پہ پابندی نہیں لگا سکتے۔ یوں بھی غداری کی فیکٹریاں کتنی دیر چلاتے رہیں گے۔ کتنی دیر حب الوطنی کے نام پہ ماؤں کے جگر گوشے لاپتہ ہوتے رہیں گے۔

کیا قومی سلامتی کے نام پہ پولیٹیکل انجینئرنگ سے لے کر غضب کے تمام ہتھکنڈے ہمارے دیکھے بھالے نہیں ہیں؟ کس طرح ہم اپنے ان بھائی بندوں کو یہ سمجھائیں کہ یہ سب کر کے ہم نے آدھا ملک تو گنوا دیا پر تم نہ سمجھے۔ سوچنے اور بولنے پر پابندیاں لگا کر بونوں اور خوشامد پرستوں کی ایک فوج تو تیار ہو سکتی ہے لیکن مرد آواز کا پیدا ہونا نا ممکن ہے۔

قدرت کے حیات کار میں چند صدیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں تو چند دہائیوں کی کیا اوقات؟ دور کیا جانا بیسویں صدی کے آغاز میں بادشاہتوں کے خاتمے کے بعد جتنی بھی نئی مملکتیں وجود میں آئیں جن میں ایک حصہ کمیونسٹ بلاک تھا۔ وہ سب جبر کے قائل تھے۔ پھر کیا بنا ان کا؟ چین، بھی ترقی کے راستے تب چڑھا جب ماؤ سے جان چھوٹی۔ بونے ملک نہیں چلا سکتے۔ ایک ایسا ریاستی بندوبست جس میں عوام کی کوئی رائے شامل نہ ہو اور جس کا وہ کسی طریقے سے حصہ نہ ہوں۔ وہ کتنی دیر چل سکتا ہے؟ سسٹم اندر اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن دھڑم سے منہ کے بل آ گرتا ہے۔

انسانوں کے غلبے، اقتدار اور طاقت کی جبلی آرزو کے آگے اگر کسی چیز نے بند باندھا ہے تو وہ ہے اختیارات کی تقسیم اور ایسے نظام کی تشکیل جو طاقت اور اقتدار کو چند ہاتھوں میں مرکز ہونے سے روکے۔ آپ جمہوریت کو لاکھ گالیاں دیں لیکن اسلام کی اصل فطری روح کے قریب ترین اگر کوئی نظام ہے تو وہ جمہوریت ہی ہے۔

ہمارے مذہبی علماء جمہوریت کو لادین نظام سمجھتے ہیں۔ خلیفہ ثانی عمر فاروق ؓ سے ان کی چادر کا سوال جمہوریت میں پوچھا جا سکتا ہے مطلق العنانی میں نہیں۔ مطلق العنانی تو تب آئی جب خلیفے کے خطبے کے چکر میں لوگوں کی عصر تک قضا ہو گئی اور وہ اف تک نہ کرسکے کہ گردن مارے جانے کا اندیشہ تھا۔

آپ سیاستدانوں کو لاکھ برا بھلا کہیں، لاکھ چور کہیں۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ وہ ان فرشتوں سے بدرجہ ہا بہتر ہیں جو ٹینکوں میں بیٹھ کر آتے ہیں اور اپنے فرض و ذمہ داریوں سے اغماض برتتے ہیں۔

سیاستدانوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ اس بربادی میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ خدا جانے ہمارے سیاسی ڈی این اے میں ہی کچھ خرابی ہے کہ ملک معاشی بدحالی اور سیاسی ابتری کی سنگین صورت سے دوچار ہے۔ کرسی پر بیٹھنے والے اور کرسی چھیننے کی آرزو کرنے والے دونوں کو ہوش نہیں کہ سیلابی تباہ کاریوں نے لوگوں کو دربدری، بھوک ننگ، بیماریاں دی ہیں۔ اختلافات بھلا کر ان کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک سلامت ہے تو آپ کو کرسی کبھی مل ہی جائے گی۔ خدارا ہوش کریں جو بھی آپسی اختلافات ہوں وہ آپس میں مل بیٹھ کر حل کریں رات کے اندھیروں میں تیسرے فریق سے راز و نیاز مت کریں۔ تاکہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ کی طرف دیکھیں نہ کہ گیٹ نمبر 4 کی طرف۔

اگر بدترین حکمران بھی آپ کے پلے پڑ جائیں تو آزمائش کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پانچ سال کا ہے اسے پورا کرنے دیں۔ پانچ سال بعد لات مار کر باہر کر دیں۔

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments