عمران خان کی گل افشانیاں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس


عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ لاہور سے نکلے کئی روز گزر چکے ہیں۔ اس مارچ کے آغاز پر سمجھا جا رہا تھا کہ عمران خان شیڈول کے مطابق 4 نومبر تک اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کا آغاز کر دیں گے مگر یہ لانگ مارچ اب فرلانگ مارچ میں بدل چکا ہے۔ عمران خان دوپہر ایک بجے کے قریب اپنے کنٹینر پر تشریف لاتے اور مغرب سے قبل واپس لوٹ جاتے ہیں جس کے بعد مارچ اگلے دن تک کے لیے ملتوی ہو جاتا ہے۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق مارچ کی سست رفتاری کا سبب شرکاء کی کم تعداد اور عوام کی عدم دلچسپی ہے لہذا نظر نہیں آ رہا کہ موجودہ سیاسی قوت سے عمران خان صاحب اسلام آباد آ کر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

دوسری طرف نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو عمران خان کے دباؤ میں آنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں اور اپنی تمام تر توجہ کارکردگی دکھانے پر رکھنی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اب تک کے رویے سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کر رہے اسی لیے وہ سعودی عرب کے کامیاب دورے کے بعد چین کے روانہ ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لانگ مارچ سے قبل عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا کے ان انکشافات نے کہ وہ لانگ مارچ میں موت اور لاشیں دیکھ رہے ہیں، ”آزادی مارچ“ پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ فیصل واڈا کی پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے ایک ایک اور قریبی ساتھی اور سابق وزیر علی امین گنڈاپور کی آڈیو بھی میڈیا کو سنوا دی۔ جس میں علی امین گنڈا پور کسی شخص سے اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر اسلحہ اور تربیت یافتہ مسلح افراد بھجوانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہی نہیں فیصل واوڈا اور علی امین گنڈا پور کے بیانات کی تائید کے پی کے حکومت کے وزیر تعلیم کامران بنگش نے بھی یہ دھمکی دے کر کر دی کہ ہم اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں اور لانگ مارچ میں اسلحہ لے کر آئیں گے۔

اس نام نہاد آزادی مارچ سے عوام کی بے اعتنائی نے عمران خان کے ہیجان اور غصے میں اضافہ کر دیا ہے جس کا اندازہ ان کے حالیہ بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اب عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ کھل کر ریاستی اداروں کی جانب کر دیا ہے تاکہ وہ دباؤ میں آ کر ماضی کی طرح مداخلت کریں اور حکومت کو تحریک انصاف کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔

نہایت افسوس کی بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے پورے دور میں اٹھتے بیٹھتے اپوزیشن پر اداروں کی ساکھ خراب کرنے اور ان کی حیثیت متنازعہ بنانے کا الزام عائد کرتی رہی لیکن جتنا نقصان تحریک انصاف نے اقتدار سے بیدخل ہونے کے بعد چند ماہ میں ریاستی اداروں کو پہنچایا ہے شاید پوری ملکی تاریخ میں اتنا نقصان نہیں ہوا۔ ساڑھے تین سال خود پر ہونے والی سیاسی تنقید کا رخ تحریک انصاف کی حکومت اداروں کی جانب موڑتی رہی تو دوسری جانب اپنی طرف سے اداروں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع بھی اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

جس نام نہاد رجیم چینج تھیوری کی بنیاد پر عسکری قیادت کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے خود عمران خان کی لیک ہونے والی آڈیوز میں اس کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ ان آڈیوز کے علاوہ بھی تحریک انصاف کے متعدد رہنما بانگ دہل تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت غیر ملکی سازش نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات میں خرابی کے سبب فارغ ہوئی ہے۔ یہاں پر ریاستی اداروں کے رویے پر بات نہ کرنا بھی مبنی بر انصاف بات نہیں۔ جو گل افشانیاں عمران خان صاحب اب تک کر چکے ہیں کسی اور سیاسی رہنما نے کی ہوتیں تو اب تک غداری اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف سمیت نجانے کتنے مقدمے بن چکے ہوتے۔

نون لیگ کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے بھی عسکری ادارے کھل کر ریمارکس دیتے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم کے احکامات کو ٹویٹ کے ذریعے ریجیکٹ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح آصف زرداری کو ایک معمولی تنقید کی پاداش میں دبئی جا کر پناہ لینا پڑی۔ عمران خان اور ان کے رفقاء نہ صرف مسلسل ملکی اداروں پر بے بنیاد کیچڑ اچھال رہے ہیں بلکہ ان کے سربراہان پر میر جعفر و میر صادق کی پھبتیاں کس رہے ہیں۔ پھر بھی ریاستی ادارے مکمل خاموش ہیں اور تحریک انصاف کوئی واضح شٹ اپ کال نہیں مل رہی۔ الٹا عدالتوں کی طرف سے تحریک انصاف کو بے جا رعایت دی جا رہی ہے۔

کہتے ہیں ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی کو میڈیا پر آ کر صفائیاں دینی پڑی ہیں اور یہ عمران خان صاحب کو بے جا رعایت دینے کا نتیجہ ہے۔ اچھی بات ہے اگر عسکری قیادت ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسے دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کر رہی ہے تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کام بہت دیر سے ہوا ہے ہم پچھلی کئی تحریروں میں لکھ چکے ہیں کہ جتنا وقت گزرتا جائے گا عمران خان جھوٹے پراپیگنڈے کی بدولت اپنی سیاسی عصبیت مستحکم کرتے چلے جائیں گے۔

یہ پریس کانفرنس چھ ماہ پہلے ہو جاتی تو آج جھوٹے بیانیے کی جڑیں اتنی مضبوط نہ ہوتیں۔ خیر دیر آید درست آید اب بھی اگر غلطیوں سے سبق سیکھنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے تو پھر کوئی جھجک نہیں رہنی چاہیے۔ عمران خان صاحب ویسے ہی سب پردے چاک کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ بہتر ہے ادارے خود آگے بڑھ کر دو ہزار تیرہ سے ہونے والی سیاسی انجنیئرنگ، دھرنوں، پانامہ اور ڈان لیکس سمیت دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات اور عمران خان کو وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھانے کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کا اعتراف کر لیں۔

یہی ایک واحد راستہ ہے عمران خان کے جھوٹے بیانیے کا سحر توڑنے اور نوجوان ذہنوں کو آزاد کرنے کا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا حالیہ لانگ مارچ میں عوام کی عدم دلچسپی کے اسباب مختلف ہیں۔ لانگ مارچ میں عوام کی عدم شرکت کے باوجود عمران خان صاحب کی مقبولیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان حالات میں اگر انتخابات کا انعقاد ہو گیا تو کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف بڑی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ملک کا کیا منظر نامہ ہو گا، عمران خان کے ریاستی اداروں سے متعلق خیالات اور مستقبل کے عزائم سے اب وہ بالکل عیاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments