کراچی واقعہ: بشری پیکر میں موجود خونخوار درندے


اکتوبر کے آخر میں جب دنیا بھر میں لوگ خوفناک شکلیں دھاریں ایک تہوار منا رہے تھے وہی کراچی کے ایک علاقے میں انسانی شکلوں والے درندے خوفناک کام انجام دے رہے تھے، وہ بپھرے درندے ہجوم کی شکل میں دو انسانوں کو بغیر کسی جرم کے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کر رہے تھے۔ قتل کسی بندوق یا پھر تلوار سے نہیں ہو رہا تھا بلکہ قتل کا آلہ پتھر، لاٹھیاں اور ڈنڈے تھے۔ ایسا ہی کچھ انداز گزشتہ سال دسمبر میں سیالکوٹ میں بھی اپنایا گیا تھا جہاں ایک غیر ملکی فیکٹری مینجر کو کچھ اسی انداز میں قتل کر دیا گیا تھا البتہ اس واقعہ میں بعد قتل لاش کو آگ لگادی گئی تھی اور پھر وہ لاش راکھ کوئلہ بن گئی تھی۔

اسی طرح کے دہشت ناک واقعات کراچی میں ہر ہفتے ہی سامنے آرہے ہیں جہاں ڈکیتوں اور چوروں کے ساتھ یہ ہی کچھ انداز قتل اپنایا جا رہا ہے اور بہت سارے انسان مل کر یہ بھیانک کام انجام دے رہیں ہیں۔ اس دوران مختلف قسم کی آوازیں اور نعرے بلند ہو رہے ہیں کہ مارو، جان سے مار دو، انھیں زندہ مت چھوڑو، جلا ڈالو اور وہ بے قابو مجمع ایک خطرناک اجتماع میں تبدیل ہو کر انسانیت کی اجتماعی بے حرمتی کر ڈالتا ہے۔

یہ انسانیت سوز رویہ آخر کیوں ہمارے معاشرے میں پنپ رہا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے مگر نہ کوئی جواب ڈھونڈ رہا ہے اور نہ کوئی حل کا سوچ رہا ہے۔ کیا یہ گھروں کا انفرادی غصہ ہے جو باہر اجتماعی نکل رہا ہے یا پھر یہ مسلسل طاری رہنے والی کیفیت ہے جو رویے میں رچ بس گئی ہے۔ اس طرح کے مظاہروں میں دو طرح کے عنصر دیکھنے میں آئیں ہیں، ایک تو یہ مذہبی رنگ میں شامل ہوتا ہے اور دوسرا یہ معاشی مشکل کی وجہ سے سامنے آنے والا غصہ ہے جو روز روز لٹنے کی وجہ سے اجتماعی طور پر بڑھتا جاتا ہے۔

یہ طریقہ ظلم بہت زیادہ انسانیت سوز ہے جس کی مذمت ہی نہیں بلکہ اس میں شریک ہونے والوں کو سزائیں بھی دینی ضروری ہوتی ہے۔ غور کریں تو اس طرح کے واقعہ میں ایک افواہ ہوتی ہے جو آگ کی طرح پھیلتی ہے اور پھر انسانوں تک کو جلا دیتی ہے اور آخر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس بنیاد پر یہ قتل ہوا وہ وجہ بنیاد جھوٹی تھی یا پھر انفرادی بغض تھا جسے جھوٹی خبر میں ڈھال کر ظلم کا بازار گرم کیا گیا۔

لیکن بے گناہ کا قتل ہو یا ڈکیت کا، یہ انداز کسی طور درست نہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں۔ یہ بات سمجھ تو آتی ہے کہ قانونی پیچیدگیاں اور کمزوریاں نظام انصاف میں رکاوٹ ڈالتی ہے مگر یہ وجہ بھی کسی طور اس بات پر صادق نہیں آتی کہ کسی بھی انسان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے۔ سب سے پہلے تو پھیلتی ہوئی افواہ کو روکنا فوری ضروری ہے اور اس کے بعد فوری طور پر قانون کو اطلاع کی جائے تاکہ بڑھتے ہوئے سانحے کو کسی طریقے سے بھی روکا جائے۔

یہ انداز ظلم کسی چور کے ساتھ ہو یا کسی عام انسان کے ساتھ یہ کسی طور قابل قبول نہیں، یہ انسانی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے جو پورے معاشرے کی اجتماعی ذہنیت کا عکاس بن جاتا ہے۔ اور اگر اسی انداز میں معاشرے کی عکاسی جاری رہی تو ہمارا معاشرہ انسانی معاشرے سے نکل جائے گا اور پوری دنیا میں اس کا شمار انتہا پسند معاشرے کے طور پر کیا جائے گا، جس کے بعد بہت ساری مشکلات کا سامنا اس معاشرے کو کرنا پڑے گا اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments