دہشتگردی کے خلاف جنگ کا فاتح پاکستان


11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے جڑواں ٹاورز پر دہشت گردی کے مقابلے میں اگر پاکستان، امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرتا تو اس کے لئے یہ معرکہ سر کرنا مشکل تھا، الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستانی صدر امریکی وزیر خارجہ کی ایک فون کال پر ڈر گئے اور سب کچھ امریکہ کے حوالے کر دیا، یہ بات حقائق کے برخلاف ہے، اس سلسلے میں

پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے دوست ممالک سے مشاورت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اخبارات کے مدیران اور مالکان سے بھی رائے لی تھی سب نے امریکہ کا ساتھ دینے کو پاکستان کے مفاد میں قرار دیا۔ کہا گیا کہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لئے ہمیں مصر کی طرح اپنے سارے قرضے معاف کروا لینے چاہئیں، یقیناً یہ ہی بہترین سفارت کاری ہے، بد قسمتی سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑا

امریکہ نے پاکستان سے معاملات میں ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی ہے۔ جب بھی پاکستان پر نازک وقت آیا تو اس نے غیر جانبداری اختیار کرلی۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ غیر جانبدار ہو گیا۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کو بھی اسلحے کی فراہمی روک دی۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت سے حالات خراب ہو رہے تھے تو کہا جا رہا تھا امریکہ اپنے ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پاکستان کی مدد کرے گا۔ یہ ساتواں بحری بیڑہ نہیں پہنچا۔ بھارت نے کھلی جارحیت کے ذریعے مشرقی پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ سلامتی کونسل میں شور مچتا رہا۔ روس بھارت کی کھلی سفارتی اور فوجی مدد کرتا رہا۔ امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔

1980 کی دہائی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی، ان دنوں امریکہ نے پاکستان کو خوب امداد دی گئی اور تمام معاشی پابندیاں ختم کر دیں۔

1998 میں جب پاکستان ایٹمی پاور بنا تو امریکہ کو پاکستان کی کامیاب پر شدید اعتراض ہوا اور ایک بار پھر پاکستان پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔

2004 سے پاکستان میں امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے شروع کر دیے گئے جن کا مقصد تو دہشت گرد مارنا تھا لیکن ان حملوں سے ہزاروں پاکستانی شہری مارے گئے۔ پاکستان میں 2004 سے 2015 تک 522 ڈرون حملے کیے گئے جن میں 4000 سے زائد لوگ مارے گئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں بھی دہشت گردی پھیل گئی، ایک عرصہ تک پاکستان کا ہر شہری خوف زدہ رہا، لیکن پھر ضرب عضب جیسے اپریشنز سے پاک فوج نے دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔

پاکستان نے عالمی امن کی خاطر ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا، اقوام متحدہ نے پاکستان کی کوششوں کی ہمیشہ سراہا ہے

امریکہ کے صدر جون بائیڈن کے پاکستان مخالف بیان پر ہر پاکستانی کا دل رنجیدہ ہوا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے 13 اکتوبر کو ڈیموکریٹک کانگریس کی مہم کمیٹی کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان ”دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہو سکتا ہے، انہوں پاکستان کے جوہری ہتھیار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی، امریکہ کی اس فضول تشویش کا مسلح افواج نے مناسب اور ٹھوس الفاظ میں جواب دیا، وزیراعظم شہباز شریف نے جو بائیڈن کے بیان کو مسترد کر کے بات کو وہی ختم کرنے کی کوشش کی، پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ٹویٹر پر کہا۔

“ تمام آزاد ریاستوں کی طرح، پاکستان بھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ”عمران خان نے دعویٰ کیا کہ بائیڈن کے بیان سے“ امپورٹڈ حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی ہے، سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے امریکا سے معافی کا مطالبہ کیا، دفتر خارجہ نے بھی جو بائیڈن کے بیان کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور امریکہ انتظامیہ کی توجہ اس جانب مرکوز کرائی، بعد ازاں وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری کرین ژان پیئر نے کہا امریکہ صدر کے بیان میں کچھ نیا نہیں تھا دراصل محفوظ اور خوشحال پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔

امریکہ کا یہ رویہ نیا نہیں ہے، وہ جب دل چاہتا ہے ہمیں استعمال کرتا ہے، جب چاہتا ہے دہشتگرد کہہ دیتا ہے، ماضی کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ ایک مفاد پرست ریاست ہے، جس نے اپنی تمام جنگوں میں پاکستان کو استعمال کیا مگر پاکستان کے خلاف جنگوں میں غیرجانبدار رہا۔ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے، یہ بھی اٹل حقیقت ہے، اگر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو امریکہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments