دورہ سعودی عرب و چین


 

سیاسی عدم استحکام کے نقصانات سب سے اول معیشت کو جھیلنے پڑتے ہیں اور جب معیشت جھیلتی ہے تو اس کے لامحالہ اثرات نظم مملکت اور سماجی اعتبار سے سب کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز گزشتہ پانچ برسوں سے مستقل طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے اور اسی صورت حال کے سبب سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی پروگرام یا منصوبہ سی پیک گمبھیر مسائل کا شکار رہا ہے اور اس کے وہ پروجیکٹ جو کہیں سے کہیں پہنچ جانے چاہیے تھے گھسٹ بھی نہیں رہے ہیں اور اسی وجہ سے قومی معیشت زبردست زبوں حالی کا شکار ہے۔

اس زبوں حالی کو قصہ ماضی بنانے کی غرض سے وزیراعظم شہباز شریف چین کا دورہ کر رہے ہے چینی قیادت کو ماضی قریب میں سی پیک کی سست رفتار کے حوالے سے یقین دلانا ہے کہ اب دوبارہ ایسی کیفیت جنم نہیں لے گی اور پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے گا۔ اس حوالے سے پاکستان میں اسحاق ڈار کی قیادت میں معاشی ٹیم کو کم وقت میں تمام تجاویز تیار کرنے کی بابت ہدایات دی گئی تھیں اور شنید ہے کہ معاشی پروگرام کے حوالے سے دستاویزات تیار کرلی گئی ہیں جو کہ چینی قیادت سے گفتگو کا محور بنے گی۔

ٹرانسپورٹ کی اعلی سہولیات معاشی نمو کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی بنا پر سی پیک میں ریلوے کی بحالی کو ایک بنیادی اہمیت حاصل تھی اور ریلوے کو بحال کرنے کی غرض سے ایم ایل ون پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا۔ مگر ماضی کی حکومت نے اس انتہائی اہم اور موضوع منصوبے کو کھٹائی میں ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی لاگت بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ خیال ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت دیکھنے میں آئے گی اور جو اس کی لاگت بڑھ گئی ہے اس کا کم سے کم بوجھ قرار رکھنے کی حکمت عملی تشکیل پا جائے گی۔

یہ منصوبہ اپنی لاگت بڑھا چکا ہے مگر چین کی جانب سے توقع ہے کہ وہ اس حوالے سے پاکستان کی معاشی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی راستہ بہرحال تلاش کر ہی لے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس بحران کے سبب سے معاشی ترقی کو غیر معمولی دھچکہ پہنچ جاتا ہے۔ اس کا جہاں پر ایک حل سستی گیس اور تیل کی فراہمی ہیں وہیں پر شمسی توانائی بھی ایک پائیدار حل کے طور پر موجود ہے۔

اسی لیے اس دورے میں اس کو مرکزی ہدف کے طور پر رکھا گیا ہے اور ایک منصوبہ سامنے ہے کہ جس سے شمسی توانائی کے ذریعے دس ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکیں گی۔ دس ہزار میگا واٹ کا لفظ ہی ظاہر کرتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے توانائی کی کمی اور وہ بھی سستی قیمت پر پورا کرنا ممکن ہو سکے گا۔ مرکزی نکتہ اس دورے کے دوران صرف شمسی توانائی سے استفادہ کرنا نہیں ہے بلکہ پاکستان میں دستیاب وسائل سے فائدہ اٹھانا بھی ہے اس کے لئے تھر کا کوئلہ غیر معمولی قدر و قیمت رکھتا ہے اور اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تھر کول پروجیکٹ گفتگو کے ایجنڈے میں شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ گوادر کول پروجیکٹ بڑا منصوبہ ہے اور اس منصوبے کو تھر کے کوئلے پر منتقل کرنا پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے پر گفتگو ہوگی۔

اس کے علاوہ کوہالہ ہائیڈرو پروجیکٹ، آزاد پتن پروجیکٹ، بجلی میٹر پروجیکٹ اور حب گوادر ٹرانسمیشن لائن پروجیکٹ شامل ہیں۔ جبکہ مختلف ایم او یوز اس کے علاوہ ہیں۔ کچھ افسر شاہی کے سی پیک سے متعلق مسائل تا ہنوز حل طلب بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایف بی آر نے ڈائریکٹر سی پیک پورٹس کی سیٹ تخلیق کی۔ اس پر ایک تعیناتی بھی کی گئی مگر اس تعیناتی کا ابھی تک باقاعدہ نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کیا گیا جب نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا تو کام کرنے کے دیگر دفتری لوازمات بھی نہیں دیے گئے۔

ایسے اہم ترین عہدے کے حوالے سے ایسا رویہ بہت تشویش ناک ہے کیوں کہ انہی مسائل کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اہمیت کا حامل یہ امر بھی ہے کہ امریکہ اور آئی ایم ایف ان تمام اقدامات کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟ خاص طور پر ان حالات میں جب پاکستان امریکہ سعودی اختلافات میں سعودی عرب کے موقف کو درست گردانتا ہے اور اس درست گرداننے کی وجہ جہاں پر ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں وہیں پر اس کی معاشی وجوہات بھی ہیں جو کہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں بالکل سامنے تھیں۔

اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ بھی گفتگو جاری ہے کہ جس میں امریکہ کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ امریکہ ان تمام اقدامات کو شک کی نظر سے مت دیکھیں اور پاکستان کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ پاکستان کسی نئے بلاک یا تصادم داخل نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کے تمام اقدامات اس کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments