ایک نئے ”عمرانی“ معاہدے کی ضرورت
ماضی قریب میں جب ملک میں جنرل الیکشن ہو رہے تھے۔ ۔ ۔ مگر آج کل تو ”جنرل“ کے بارے میں کچھ بھی کہنے پر نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو جنرل نالج، جنرل الیکشن وغیرہ کی اصطلاحات سے گریز و پرہیز ہی بہتر ہے۔ چلئے یوں کہتے ہیں کہ 2018 کے ”حکومت سازی کے انتخابات“ میں ”دو نہیں ایک پاکستان“ کا نعرہ بڑے زوروں سے کامیاب کروایا گیا۔ اور ہماری اشرافیہ کے خیال میں پاکستان کی بقاء کے لئے یہ کرنا انتہائی لازمی تھا۔ ویسے بھی عموماً پاکستان میں الیکشن کے نتائج انتخابی حلقوں سے زیادہ طاقتور حلقوں کے فیصلوں پر منحصر ہوتے ہیں۔
خیر تو 2018 کے انتخابات کے بعد کبھی آنکھیں دکھا کر تو کبھی جہاز اڑا کر حکومت ویسے ہی بنی جیسی بنانی تھی۔ اور پھر ایسے کام شروع ہوئے کہ ”گھبرانے“ کا تصور ہی پاکستانیوں کے ذہنوں سے مفقود ہوا۔ شاید ایسی تبدیلی پہلے کبھی اس مملکت خداداد میں رونما نہیں ہوئی تھی۔ اس حکومت نے پہلی مرتبہ پاکستان کو اپنے نازک ترین دور سے نکال کر اپنے مزاحیہ ترین دور میں داخل کر دیا گیا۔ اور یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا۔
ویسے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق وقت لچکدار ہے اور سب کے لئے یکساں نہیں ہے۔ تو اس حکومت کے پونے چار سال حکومتی ارکان کے لئے تو چشم زدن میں گزرے لیکن حزب اختلاف کے لئے صدیوں پر محیط تھے۔ اور تب آیا وقت کہ حکومت کی ستون فقرات بننے والی مقتدرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور انہوں نے غیر جانبداری کی اوڑھنی اوڑھ لی۔ اور یہ ہونا تھا کہ حکومت دھڑام سے گر گئی اور پھر یہ عمل بیرونی سازش، نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے، میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے پر منتج ہوا۔ وہ کہاوت ہے نا کہ ”جن کو لاڈ گھنیرے۔ ان کو دکھ بہتیرے۔“
اب فوج کوشش کر رہی ہے کہ انہیں سیاست سے دور رکھا جاوے۔ پر اتنی مدت سیاست کے کھیل کو کھلواڑ بنانے میں جن کا ہاتھ رہا ہو وہ اتنی آسانی سے کہاں بھاگ سکتے ہیں۔ خیر اگر فوج واقعی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کو تیار ہے تو یہ تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوریت خواہوں کے لئے ایک نہایت ہی موزوں موقع ہے۔ اور وہ موقع ہے اس ملک کو ایک مستحکم سیاسی اور مضبوط جمہوری عمل میں داخل کرنے کا۔ مگر اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کو اختلافات کو بھلا کر ایک پیج پر آنا پڑے گا۔ اب ایک نیا ”عمرانی معاہدہ“ یا ایک نیا ”میثاق جمہوریت“ وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے جس کی اہم شقیں کچھ یوں ہونی چاہیے :
1۔ اٹھارہویں ترمیم میں تقریباً ساری شقیں بہت کام کی ہیں اور پاکستان کے مفاد میں ہیں لیکن یہ شق کہ کسی پارٹی کا لیڈر تاحیات بھی پارٹی صدر یا چیرمین رہ سکتا ہے ایک غیر جمہوری شق ہے اور اس کو بدلنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ آٹھ سال کے عرصے تک ایک شخص کو پارٹی کے صدر یا چیرمین کے طور پر خدمات سرانجام دینے کو اصول بنانا چاہیے۔ اور میری رائے میں یہ شق بھی ضروری ہے کہ اگلے آٹھ سال تک پارٹی کے سابقہ صدر یا چیرمین کے قریبی اور دور کے رشتہ دار بھی اس عہدے کے لئے غیر موزوں تصور کیے جائیں تاکہ موروثیت کا قلع قمع کیا جا سکے۔
2۔ تمام سیاسی جماعتوں میں شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد ضروری کیا جائے تاکہ پارٹی لیڈر بھی ایک جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت متعارف کیے بغیر ملک میں جمہوریت لانا ناممکن ہے۔
3۔ تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر الیکشن کرانے کا ایک طریقہ کار وضع کریں، الیکشن کمشن کو با اختیار اور آزاد بنائیں اور اس کے بعد سب کو الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ یعنی عوام یا جمہور کی رائے کو مقدم رکھا جائے۔
4۔ یہ طریقہ کار بھی وضع کیا جائے کہ آپس کے اختلافات کو کیسے حل کیا جائے گا اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ کوئی بھی کسی شکل میں فوج یا مقتدرہ سے کسی بھی حالت میں رجوع نہیں کرے گا اور سارے قومی اداروں کو سیاست سے پاک رکھا جائے گا۔ بلکہ الیکشن کمیشن کے قانون میں لکھا جائے کہ جو پارٹی سیاسی مقاصد کے لئے کسی ادارے سے رابطہ کرے گا وہ تاحیات نا اہلی کا حامل ہو گا۔
5۔ لوٹوں کی حوصلہ شکنی اچھے سیاسی کلچر کے فروغ کے لئے نہایت ضروری ہے اور اس کے لئے سب پارٹیوں کو اپنے آئین میں یہ شق ڈالنی ہوگی کہ جو سیاسی ورکر بھی کسی پارٹی کو چھوڑ کر نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کو اپنی نئی پارٹی میں کم از کم چھ سال گزارنے ہوں گے تو تب ہی جا کر وہ الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ کا اہل ہو گا۔
یعنی موروثیت، انتخابات میں شفافیت، مستقبل میں مقتدرہ کی سیاست میں دخل در معقولات کی بیخ کنی اور لوٹا کریسی کو سسٹم سے نکال کر بہت ہی اہم پیشرفت ہو سکتی ہے۔ بعض دوستوں کی رائے میں تعلیم کی شرط بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے ضروری ہونی چاہیے مگر میری ناقص رائے میں یہ فیصلہ بھی عوام پر ہی چھوڑا جائے کہ وہ اگر چاہیں تو ایسے بندے کو بھی ووٹ دے کر منتخب کریں جو کبھی سکول نہ گیا ہو۔ جو اکثریت کا فیصلہ بس وہی سر آنکھوں پر۔ اور یہی اصل جمہوری اصول ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ سیاست دانوں کو ہر چیز کو اپنے کریڈٹ پر لینے کی بڑی ہی چاہ ہے۔ فوج کو اپنے آئینی دائرہ کار تک محدود رکھنے کے لئے بھٹو صاحب نے بھی بڑی مضبوط کوشش کی تھی اور وہ بھی اسی ”کریڈٹ سمیٹنے“ والے مزاج کے تھے اور چاہتے تھے کہ سارا کریڈٹ ان کے ہی نام رہے۔ اس لئے انہوں نے بھی ساری جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر سب کچھ اکیلے کرنا چاہا۔ مگر پھر ان کے ساتھ جو ہوا وہ اب تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لیے راقم کی تجویز ہے کہ اس معاہدے یا میثاق میں ساری چھوٹی بڑی جماعتوں کو شامل رکھا جائے تاکہ یہ میثاق ایک وسیع البنیاد اور ہمہ جہتی معاہدہ ہو اور ساری جماعتیں اس کی اونر شپ قبول کر کے اس کی پابند رہیں۔ وہ ”میں باغی ہوں“ نظم کے خالق اور انقلابی شاعر ڈاکٹر خالد جاوید جان صاحب نے کیا خوب کہا ہے :
سارے جھگڑے نمبر ون کے
قوموں کے بھی، لوگوں کے بھی
لیکن اس چکر میں آ کر
انساں نیچے گرتے گرتے
بالکل زیرو ہو جاتا ہے
- ایک نئے ”عمرانی“ معاہدے کی ضرورت - 07/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).