گالی اور گولی کی سیاست کیوں؟


سیاسیات یا پولیٹیکل سائنس کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جب ہم سیاسیات کی تعریف پڑھتے ہیں تو یہ امور ریاست یا انتظام حکومت چلانے کے علم کو کہا جاتا ہے۔ سٹیٹس مین یا سیاستداں وہ ہوتے ہیں جو یہ امور اور یہ انتظام چلانا بحسن و خوبی جانتے ہوں۔ ان میں تدبر ہو، دانشمندی ہو، رواداری ہو، مکالمے کی صلاحیت ہو، معیشت اور معاشرت کو جانتے ہوں، اخلاق اور بردباری کے پیکر ہوں، عوام کی امیدوں اور امنگوں کے بے لوث خدمت گار ہوں، لوگوں کے اکٹھا ہونے کا مرکزہ ہو۔ عوام میں اتفاق، یگانگت، امن، سکون و آشتی اور خوشیاں لانے اور پھیلانے والے ہوں۔ لوگوں کے دلوں کی وہ آواز ہو جو صرف عوام ہی سن سکتے ہوں۔ عوام کو ذاتی مقاصد کے لئے نہ استعمال کرتے ہوں اور نہ ان سے منافقانہ رویہ رکھتے ہوں۔ عوام ہی میں سے ہوں اور عوام ہی میں سے رہیں اٹھے، بیٹھے اور وقت گزاریں، عوامی فلاح و بہبود ان کا اولین فریضہ ہو اور عوام ہی کے لئے جیتے اور مرتے ہوں۔

باچا خان کا قول ہے کہ ،، خدمت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا اختلاف خود غرضی سے جنم لیتا ہے، ۔

جب سیاست خالص خدمت کے لئے کی جائے تو خدمت میں تقسیم کار، تقسیم صلاحیت کار اور استعداد کار پر کام آگے بڑھتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ اور شخصیات ہوں گے اتنا ہی کام یا خدمت جلدی با آسانی اور سلیقے سے انجام پذیر ہوگی۔ ہر کوئی کام کرنے کو ترجیح اور ہر کوئی دوسرے کو زیادہ موقع فراہم کرے گا۔ کیونکہ اس میں کسی کی کوئی ذاتی لالچ یا طمع نہیں ہوتا۔

لیکن اگر خدمت کسی لالچ طمع یا اصول مفادات کے لئے کی جائے تو پھر کام یا خدمت تقسیم کار، تقسیم صلاحیت کار یا استعداد کار پر نہیں بلکہ ذاتی پسند اور ناپسند، اقرباپروری اور چنے ہوئے لوگوں سے کرائی جاتی ہے جس سے ایک تو کام وقت پر نہیں ہوتا کیونکہ اکثر ایسے میں کام ایک دوسرے کو سونپا جاتا ہے اور سلیقے سے بھی نہیں ہوتا۔

سیاست اگر پروفیشنل طریقے سے کیا جائے تو یہ عبادت ہے لیکن اگر کمرشل طریقے سے کیا جائے تو یہ ریاکاری، دھوکہ، اور دوغلا پن بن جاتا ہے۔

ہماری سیاست میں یہ گالم گلوچ یہ گولی کی تھر تھراہٹ یہ مارپیٹ یہ بد زبانی یہ غیر اخلاقی روش اور یہ کینہ یہ بغض اور یہ حسد جو در آیا ہے یہ اس لئے کہ سیاست اب کاروبار بن چکی ہے اور کاروبار میں کوئی کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہیں اور نہ شراکت کا سوچتے ہیں بلکہ مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری جما کے رکھتے ہیں۔

اب اگر ایک فریق اپنے کاروبار پر دس بیس سال کی سرمایہ کاری کریں اور پھر ان کو پانچ سال اس کے منافع بٹورنے کے لئے مل جائے تو پھر وہ پہلے مخالفین کو کچلے گا، پھر دونوں ہاتھوں سے کمائے گا، تجوریاں بھرے گا، اپنوں یار دوستوں کو نوازے گا۔ اور مزید یہ کہ صرف پانچ سال کا نہیں بلکہ عمر بھر کی خدمات کے لئے عوام کے سامنے تیار رہنے کے لئے حیلے بہانے تراشے گا اور وہ بیانیہ مارکیٹ میں لائے گا جو عوام میں مقبول ہو جو عوام کے سوچ سے مطابقت رکھتا ہو۔

کاروبار میں صرف اپنا فائدہ سوچا جاسکتا ہے اور کاروباری شخص دوسروں کو گاہک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور گاہک جتنے زیادہ اور جتنے سادہ ہوں اتنا ہی ان کا مال زیادہ اور جلدی بکے گا خوا وہ خراب ہی کیوں نہ ہو وہ سڑا اور پرانا کیوں نہ ہو کیونکہ عوام یا گاہک ظاہر پرست ہوتے ہیں وہ داخلی صورت حال کا مشاہدہ نہیں کر سکتے چند ایک کے سوا کیونکہ ان کی آواز اتنی توانا نہیں ہوتی کہ وہ ان کو مغلوب کر سکے۔

کاروبار، لین دین اور پیسوں کے معاملات میں بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے چہ جائیکہ مخالف نظریہ رکھنے والے یا مخالف کاروبار کرنے والے دوست ہی رہے۔

سیاست اب کاروبار بن چکی ہے اور کاروبار میں رقابت ایک فطری عمل ہے، گالی اور گولی اگر فطری عمل نہیں تو عادی عمل ضرور ہے۔ کیونکہ مخالفین پر پھول نہیں برسائے جاتے مخالفین کو دعائیں نہیں دی جاتی، مخالفین کو سہارا نہیں دیا جاتا بلکہ مخالفین پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، مخالفین کو گالیاں اور برا بھلا کہا جاتا ہے اور مخالفین کا سہارا نہیں مخالفین کو دھتکارا جاتا ہے۔

خدمت تو بہت مشکل کام ہے خدمت میں تو جیب سے لگایا جاتا ہے جیب میں ڈالا نہیں جاتا، خدمت میں وقت دیا جاتا ہے وقت لیا نہیں جاتا۔ خدمت میں منافع نہیں ہوتا خدمت میں نقصان ہوتا ہے خدمت میں حسد نہیں ہوتا خدمت میں ہمدردی اور بھائی چارہ ہوتا ہے، خدمت میں دوسرے کو بھگایا نہیں جاتا بلکہ آوروں کو بلایا جاتا ہے۔

سیاست جب خدمت تھی تو سیاست صدیقوں کے پاس تھی سیاست جب خدمت تھی تو سیاست عدل فاروقی میں پنہاں تھی، سیاست جب خدمت تھی تو سیاست غنی کی دہلیز پر سجدہ ریز تھی، سیاست جب خدمت تھی تو سیاست علی کے شجاعت اور بہادری کے گرد گھومتی تھی۔ جب کہ بعد میں بھی جگہ جگہ مثالیں تاحال ملتی رہی ہیں لیکن آج کل سیاست خدمت کے بجائے کاروبار یا بزنس نظر آ رہی ہے اور بزنس میں کسی کو القابات ان کے خدمات پر نہیں ان کے منافع پر ملتے ہیں اور وہ منافع صرف اور صرف کمانے والے کا حق ملکیت ہوتا ہے اس میں کسی کی ملکیت کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا اور نہ وہ ایسا سوچ سکتے ہیں اور اگر سوچتے ہیں تو پھر گالی اور گولیوں کی زبان جنم لیتی ہے جس طرح کہ اس وقت سیاست کاروبار بن کر گالی اور گولیوں کی زبان بن چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments