سفرنامہ: “پتھر ریت اور پانی”


Dr Shahid M shahid

زندگی ایک سفر ہے۔ پانی کی طرح ہے۔ سائے کی طرح ہے۔

آبی بخارات کی طرح ہے۔ پھول کی طرح ہے۔ انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے تھوڑے دنوں کا ہے۔ دکھ سے بھرا ہے۔

وہ پھول کی طرح نکلتا اور کملا جاتا ہے۔ زندگی کے مختصر عرصے میں انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اکثر دنیا کی تعمیر و ترقی دیکھ کر اس کا جی بھی للچاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں بھی دوسروں کی طرح بڑھو پھلوں۔ میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔ مجھے جسمانی اور روحانی آسائشیں میسر آئیں۔ مگر وقت ہر کسی کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کرتا۔ اسے یکساں مواقع فراہم نہیں کرتا۔ البتہ قدرت جس پر مہربان ہو اسے وسائل کی گھڑی عطا کرتی ہے۔

یقیناً سفری داستان مرتب کرنے کے لیے وسائل پہلی شرط ہے جو سندر سپنوں اور منزہ جذبوں کے ساتھ امید کا دامن پھیلاتی ہے۔ واہ قدرت تیرے جلوے، رنگ، روپ اور معجزات کیسے بھلے اور شک و تحسین سے لبریز ہیں۔ انہیں دیکھ کر تیری خدائی، جمال، کاری گری اور ہر حشمت پر دل خدا ہوتا ہے۔ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں حالات، وقت اور موسم بدلتے ہیں۔ زندگی اپنے تصور میں کبھی غم کے بادل اور کبھی پھول کے تصور میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اگر تمام تر باتوں، یادوں، ارادوں، اور جذبوں سے منزہ ہو کر آسمانی کمک کو ایمان کی روشنی میں مانگا جائے تو خوابوں کی تعبیر ہوتے وقت زیادہ وقت نہیں لگتا۔

سفرنامہ لکھنے کی ایک اچھی روایت ہے جسے لکھنے کے لیے منظر کشی، حالات، واقعات، جنرل نالج، وقت، ذہانت، زبان، ثقافت اور اچھی اور صحت بخش یادداشت بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر سفرنامہ اپنی تاریخ مکمل نہیں کرتا۔ آج میرے ہاتھوں میں جو کتاب ہے۔ اس کا نام ”پتھر، ریت اور پانی“ ہے۔ اس کے مصنف معروف شاعر جاوید یاد صاحب ہیں۔ ان کا قلمی نام جاوید یاد ہے۔ جبکہ اصل نام جاوید جوزف مل ہے۔ وہ ایک شاعر، کالم نگار، گیت نگار اور سفر نامہ نگار ہیں۔ وہ شہر ملتان کا باسی اور ادب نواز دوست ہے۔ جہاں شاعری ان کا مشغلہ ہے وہاں انہوں نے سفر نامہ لکھ کر اپنے اندر ایک نئی تحریک پیدا کی ہے۔ ان کی جستجو اور لگن نے ذاتی اور خارجی مشاہدات کو سفری داستان کے ساتھ روانی و سلاست کے ساتھ نتھی کر دیا ہے۔

جب میں اس سفر نامے کا مطالعہ کر رہا تھا تو میری دلچسپی بدستور بڑھتی گئی۔ وجہ تسمیہ کا احوال کچھ یوں ہے۔ یہ سفر نامہ تین ممالک کی اپنے اندر فکری داستان رکھتا ہے۔ ان سہ ممالک میں نیپال، دبئی ابوظہبی، اور ملیشیا ہیں۔ ان تینوں ممالک کے پس منظر، حقائق، زبان و ثقافت، تاریخی پس منظر، جگہوں کے نام، آبشاروں اور جھیلوں کے نام، اقدار و روایات، بندرگاہیں، میوزیم کا احوال، عمارتوں کا جائزہ، جس ذہانت و فطانت سے لکھا گیا ہے۔ وہ بنجر زمین میں پھول اگانے کے مترادف ہے۔

یقیناً سفرنامہ لکھنے کے لیے منطقی سوچ، مشاہداتی آنکھ، اور قلم کی روانی و سلاست کا پہرا چاہیے۔ سفرنامہ میں واقعات بڑی دلچسپی اور فکری شعور سے قلمبند کیے گئے ہیں۔ طوالت کی بجائے اختصار کا سہارا لیا گیا ہے جو قاری کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔ قارئین جیسے جیسے سفر نامے کی پرتوں کو ہضم کرتا ہے ویسے ویسے اس کی بھوک اور تڑپ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سفرنامہ پڑھتے ہوئے مذکورہ ممالک کا تاریخی پس منظر، ادب و احترام، اقدار و روایات، زبان و ثقافت، کرنسی، ہوٹلز، کھانوں کی ورائٹی، اخلاقی سیرت، رسم و رواج اور لوگوں کی شخصیت و فن کو پہچاننے کا موقع ملتا ہے۔ مثلاً نیپال کے بارے میں انہوں نے جو معلومات مذہبی اور رسومات کے طور پر بیان کی ہے۔ اسے پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنف کیسی تصویر کشی کا تجربہ رکھتا ہے۔ اسے واقعات، چیزوں، مقاموں، جگہوں اور ممالک سے کس قدر دلچسپی ہے۔ فاضل دوست نے سفرنامہ میں جن مقاموں، آبشاروں، جھیلوں، میوزیم، چمگادڑ غار، برج خلیفہ دبئی کا ذکر کیا ہے۔ وہ سب معلوماتی اور دلچسپی کا محور ہیں۔

دیدار ایک فطری جذبہ ہے جب یہ مصمم ارادہ میں ڈھل جائے تو تسکین قلب رشک و تحسین محسوس کرنے لگتا ہے۔ فطرت سے پیار ہونے لگتا ہے۔ آنکھوں میں حیرت و ستائش کی تصویر بن جاتی ہے۔ زبان تعریف و توصیف کے نغمے گنگناتی ہے۔ مبارک ہے وہ شخص جو اپنی زندگی میں سفری یادداشتوں کی گھڑی باندھتا ہے۔ اسے اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ اس پر غور و خوض کرتا ہے۔ اپنی یادداشت نسلوں کے لیے چھوڑتا ہے۔ سفرنامہ سہ حرفی ٹائٹل مثلث کی تصویر بناتا ہے۔ ان کی قربت، دوستی اور بھائی چارے کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ جہاں پتھر پانی اور ریت کا آمیزہ پڑا ہو۔ وہاں ہاتھ پاؤں بھگونے کو دل کرتا ہے۔ تینوں چیزیں پانی کی رفتار، مقدار اور شفافیت کا قرینہ پیش کرتی ہیں۔

مجھے بے حد خوشی اور فخر محسوس ہو رہا ہے کہ فاضل دوست جناب جاوید یاد صاحب نے مجھے اپنی خوبصورت تخلیق و دیت کی۔ میرے علم میں اضافہ کیا۔ کتاب دوستی کا حق ادا کیا۔ احترام کا رشتہ برقرار رکھا۔ میں انہیں ذہین اور فطین لکھاری ہوتے ہوئے قلمی تحریک کا عظیم سپوت مانتا ہوں۔ انہوں نے جس خوبصورتی، لگن اور تحقیق و جستجو سے سفری داستان لکھی ہے۔ وہ قابل تحسین عمل ہے۔ امید ہے ان کا یہ سفر نامہ بہت سی بجھی زندگیوں میں چلنے کی ہمت پیدا کرے گا۔ وہ اپنی حیات میں سفر کرنے کا ارادہ کریں گے۔ اپنے تجربات و مشاہدات میں اضافہ کریں گے۔ دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔

امید ہے ان کے اس سفرنامہ سے بہت سے قارئین مستفید ہوئے ہوں گے۔ انہیں نئی واقعات سے آگاہی، معلومات اور ایک تحریک ملی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments