عمران خان کو کون مارنا چاہتا ہے؟ قاتلانہ حملہ کے بعد اٹھنے والے سوالات


وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ وہ فل کورٹ پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن بنائیں تاکہ عمران خان نے خود پر قاتلانہ حملہ کے سلسلہ میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک میجر جنرل پر قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا جو الزام لگایا ہے، اس کی اصل حقیقت عوام کے سامنے آ سکے۔

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ متعدد دیگر سانحات کی طرح عمران خان پر حملہ کی حقیقت کبھی سامنے آ بھی سکے گی یا نہیں لیکن وزیر اعظم کی اس بات سے اتفاق کیا جانا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ ہی شاید وہ واحد قومی فورم بچا ہے جس کی کہی ہوئی بات کو وسیع تر پذیرائی نصیب ہو سکتی ہے۔ ملک میں الزام تراشی اور عدم احترام و اعتبار کا جو ماحول در آیا ہے، اس میں تمام ادارے اور افراد مشکوک اور ناقابل اعتبار دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ محل نہیں کہ اس مزاج کے عوامل پر بحث کی جائے لیکن موجودہ بحران میں کسی تصادم سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ ایک ایسے فورم کے طور پر ضرور موجود ہے جس پر وزیر اعظم بھی اعتبار کر رہے ہیں اور عمران خان نے بھی حالیہ دنوں میں متعدد معاملات میں چیف جسٹس سے سو موٹو نوٹس لینے اور داد رسی کی اپیل کی ہے۔ اس لئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نے تازہ الزامات کی تحقیقات کے لئے فل کورٹ عدالتی کمیشن بنانے کی جو درخواست کی ہے، تحریک انصاف اور عمران خان بھی اس سے اتفاق کریں گے۔

عمران خان نے اگر وزیر اعظم کی تجویز کی تائید کی تو چیف جسٹس کے لئے ایسا کمیشن بنانا آسان ہو جائے گا ورنہ موجودہ سیاسی تناؤ کے ماحول میں صرف حکومتی تجویز پر کوئی اقدام شاید سیاسی تقسیم میں سپریم کورٹ کو حصہ دار بنانے کی کوشش قرار پائے۔ ایسے میں چیف جسٹس کے لئے یک طرفہ طور سے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ معاملات کو پیچیدہ کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ یوں بھی سپریم کورٹ کوئی تحقیقاتی فورم نہیں ہے۔ اگر چیف جسٹس وزیر اعظم کی تجویز پر فل کورٹ کمیشن بنا بھی دیں تو بھی عمران خان پر حملہ جیسے جرم کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے پاس براہ راست کوئی مہارت موجود نہیں ہے۔ عدالت کے ججوں کو یہ ساری معلومات متعلقہ اداروں، حکومت اور موقع پر موجود گواہوں کے بیانات سے حاصل کرنا ہوں گی۔ اس پیچیدہ اور مشکل کام میں طویل مدت صرف ہو سکتی ہے۔ اس دوران الزام تراشی کا سلسلہ ملک میں موجود بے چینی میں اضافہ کرتا رہے گا۔

وزیر اعظم کی تجویز اس تناظر میں تو معقول کہی جا سکتی ہے کہ عمران خان نے براہ راست وزیر اعظم و وزیر داخلہ کے علاوہ ایک اعلیٰ فوجی افسر پر سازش کا الزام عائد کیا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت جو بھی اقدام کرے، تحریک انصاف اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ اس لئے شاید عدالت ہی وہ واحد فورم ہے جس پر اتفاق رائے کی صورت میں ’غیر جانبدارانہ‘ یا کم از کم فریقین کے لئے قابل قبول تحقیقات ممکن بنائی جا سکتی ہیں۔

اس معاملہ میں وزیر اعظم کی طرف سے فل کورٹ کمیشن بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ایسا کمیشن بنایا جائے جس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شامل ہوں۔ شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کی درخواست کرتے ہوئے ’کھلا میدان‘ نہیں دیا بلکہ یہ درخواست مشروط ہے۔ چیف جسٹس اگر عملی وجوہات یا کسی تکنیکی نکتہ کی بنیاد پر یا ذاتی رائے کے مطابق اس تجویز کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چند ججوں پر مشتمل کمیشن بنایا جاتا ہے تو بھی معاملہ سلجھنے کی بجائے پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے فل کورٹ کا تقاضا کرتے ہوئے درحقیقت یہ اعتراف کیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے بعض ججوں کے بارے میں مختلف حلقوں میں تحفظات موجود ہیں۔ ماضی میں مختلف امور پر قائم ہونے والے بنچز اور سینئر ججوں کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی پر نکتہ چینی سامنے آتی رہی ہے۔ اس پس منظر میں یا تو چیف جسٹس اس حکومتی تجویز کو مسترد کر دیں تاہم اگر انہوں نے کمیشن کی تجویز مان لی لیکن اپنی پسند کے ججوں پر مشتمل کوئی ایسا کمیشن بنایا جس پر وسیع تر اعتماد کا ماحول موجود نہ ہوا تو اس کا نتیجہ خواہ کچھ بھی برآمد ہو لیکن اس پر اختلاف ضرور سامنے آئے گا اور سپریم کورٹ کی خود مختاری اور غیر جانبداری پر سوال اٹھائے جائیں گے۔

وزیر اعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں حال ہی میں کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے معاملہ کی تحقیقات کا معاملہ بھی اس کمیشن کے دائرہ اختیار میں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے بظاہر یہ تجویز ارشد شریف کے خاندان کی طرف سے سرکاری تحقیقات پر عدم اعتماد کے اظہار کے بعد دی ہے۔ البتہ وزیر اعظم کے اس طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کوئی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے ہر معاملہ سپریم کورٹ کی طرف دھکیل کر خود سرخرو ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صورت حال آج دن کے دوران اس وقت بھی دیکھنے میں آئی جب پیمرا نے عمران خان کی تقریروں اور پریس کانفرنسوں کو ٹی وی چینلز پر نشر کرنے کی ممانعت کا حکم دیا تاہم تھوڑی دیر بعد ہی حکومت نے خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس حکم کو معطل کر دیا۔ حالانکہ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کہ پیمرا نے عمران خان کی تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی کا فیصلہ وزیر اطلاعات کے مشورہ یا انہیں بتائے بغیر کیا ہو گا۔ اس لئے پابندی لگانے کے بعد فوری طور سے اسے ختم کرنے کا عمل بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ یا تو حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے اور یا اس میں مناسب وقت پر درست فیصلے کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔

تاہم آج کا سب سے المناک اور افسوسناک واقعہ سینیٹر اعظم سواتی کی پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے روتے ہوئے اطلاع دی کہ کل رات کسی نامعلوم نمبر سے ان کی اہلیہ کو ان کی ازدواجی زندگی کی ویڈیو روانہ کی گئی جس کے سبب پورا خاندان شدید صدمے کا شکار ہے۔ یہ ویڈیو ملنے کے بعد اعظم سواتی کی اہلیہ اور بچے فوری طور سے امریکہ روانہ ہو گئے۔ اعظم سواتی نے یہ ویڈیو بھیجنے کا الزام بھی اسٹبلشمنٹ پر عائد کیا ہے اور کہا کہ ’فوج کی وردی میں ملبوس ان کالی بھیڑوں کو جب کچھ نہ ملا تو انہوں نے میری اور میری بیوی کی ذاتی ویڈیو نکال لی‘ ۔

اس سے پہلے جب آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ کرنے پر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا تھا تو انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس دوران ان کے ساتھ انسانیت سوز تشدد کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ بھی اب سپریم کورٹ کے زیر غور ہے۔ اعظم سواتی کی پریس کانفرنس کے بعد اس افسوسناک سانحہ پر عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی طرف سے یکساں طور سے مذمت کی گئی ہے۔ سیاسی نظریات کی بنیاد پر تقسیم معاشرے میں اس قسم کا اظہار یک جہتی تصویر کا روشن پہلو ضرور ہے لیکن کسی سیاسی لیڈر کی نجی ویڈیو نشر کرنے کی دھمکی دینا یا اہل خاندان کو روانہ کرنا انتہائی کربناک واقعہ ہے جس کی مذمت کے لئے الفاظ تلاش کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔

اس دوران ایف آئی اے نے زیر بحث ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اور اسے فوٹو شاپ کے ذریعے جعلی طریقے سے بنایا گیا ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ویڈیو کن عناصر نے تیار کی اور کس نے اعظم سواتی کی اہلیہ کو روانہ کی۔ یہ فعل بجائے خود ایک مجرمانہ فعل ہے جس کی مذمت بھی ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کو تلاش کر کے اس جرم کی سزا بھی ضرور ملنی چاہیے۔ اعظم سواتی کا دعویٰ ہے کہ یہ ویڈیو ان کے دورہ کوئٹہ کے دوران بنائی گئی ہوگی جب وہ چیئرمین سینیٹ کے انتظام میں سپریم کورٹ کے جوڈیشل لاجز میں ٹھہرے تھے۔

یہ قیاس اگر درست ہے تو ویڈیو کو جعلی کی بجائے ’حقیقی‘ ماننا پڑے گا۔ پھر یہ جاننا بھی ضروری ہو گا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو ایسی رہائش گاہوں پر ریکارڈنگ کرنے کی دسترس بھی رکھتے ہیں جہاں عدالت عظمی کے جج قیام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ معاملہ ایک سینیٹر کی پرائیویسی سے بڑھ کر ملک کے با اختیار اداروں کی دسترس اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لوگوں کی حفاظت سے متعلق ہوجاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی اس معاملہ پر غیر جانبدارانہ تحقیقات اہم ہیں تاکہ ملکی نظام میں خفیہ نگرانی کے اس سب کلچر کا خاتمہ کیا جا سکے۔ بہتر ہو گا کہ چیف جسٹس اگر وزیر اعظم کی درخواست پر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنائیں تو وہ اعظم سواتی کے الزامات کا جواب بھی تلاش کرے۔ عمران خان پہلے ہی اس معاملہ پر سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔

حالات و واقعات کی موجودہ رو میں ملکی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں خاص طور سے نشانے پر ہیں۔ اس لئے اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اس صورت حال کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں اور بھارتی ماہرین، تجزیہ نگار اور مبصرین پاک فوج و ایجنسیوں کو نشانہ بنانے میں ایک دوسرے پر سبق لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ فوج کو خود پر حملہ میں فریق بنا کر ملک دشمن عناصر کو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا نایاب موقع فراہم کیا ہے۔ البتہ اب اس ڈرامہ کا ڈراپ سین ہونا چاہیے اور تمام حقائق منظر عام پر لائے جائیں تاکہ کسی سیاسی تنازعہ کو ملکی سلامتی اور اس کے اداروں کی شہرت کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہو سکے۔

اس موقع پر فطری طور سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کون عمران خان کو مروانا چاہتا ہے؟ تحریک انصاف کے بیانیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی ادارے اور حکومت اس میں ملوث ہے لیکن ایک تو یہ الزام محض قیاس آرائی ہے، دوسرے یہ واضح نہیں ہے کہ کوئی فوجی افسر یا حکومت کیوں عمران خان کو مروانا چاہے گی؟ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ لوگ لانگ مارچ سے پریشان تھے۔ حالانکہ عمران خان کا یہ لانگ مارچ ایک ناکام کوشش تھی اور لوگوں کی بہت معمولی تعداد اس میں شریک تھی۔ یوں بھی یہ لانگ مارچ نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر منعقد ہونے والا سیاسی شو تھا جس میں علاقے کے لوگ ’تماشا‘ دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے۔ تحریک انصاف کو اس ناکامی کا احساس ہو چکا تھا، اس لئے اسلام آباد پہنچنے کی تاریخ میں ایک ہفتہ کی توسیع کی گئی تھی۔ عمران خان کی کوشش تھی کہ انہیں کوئی فیس سیونگ مل جائے اور ان کا کوئی مطالبہ جزوی طور سے ہی تسلیم کر لیا جائے لیکن نواز شریف کے سخت موقف کے بعد حکومت نے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کی پریس کانفرنس کے بعد اسٹبلشمنٹ کی ’خفیہ مدد‘ کا راستہ بھی مسدود ہو چکا تھا۔

عمران خان پر حملہ کے بعد تحریک انصاف کو لانگ مارچ کا ’ڈھول‘ گلے سے اتارنے کا باعزت راستہ مل گیا ہے۔ ایک افسوسناک سانحہ کی وجہ سے پارٹی کو مناسب فیس سیونگ مل گئی ہے، تاہم اب اس سانحہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ ملک میں سیاسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت میں اضافہ کرے گا اور دونوں طرف سے بے بنیاد الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسے میں عمران خان اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کروانے سے انکار کر کے مناسب تحقیقات کا راستہ خود ہی مسدود کر رہے ہیں۔ حالانکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور اس حملہ کے حقیقی عوامل تک پہنچنے میں کوئی عملی رکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہیے۔

البتہ اگر ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش جاری رکھی گئی تو سیاسی ماحول میں کشیدگی کے علاوہ اداروں سے براہ راست تصادم تحریک انصاف کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے اس الزام تراشی کے خلاف حکومت سے کارروائی کا تقاضا کیا گیا ہے۔ ایسی کوئی کارروائی متعدد لیڈروں کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے۔ عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ وہ جوش کے عالم میں اپنے شدید سیاسی مخالفین کے ہاتھ میں کوئی ایسا ہتھیار نہ تھما دیں جو وہ ان کے ’سیاسی قتل‘ کے لئے استعمال کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments