پی او آر کارڈز کے حامل افغانیوں کو کیوں گرفتار اور ہراساں کیا جاتا ہے؟


ایک وقت تھا کہ افغان مہاجرین کے لئے ساری دنیا نے عموماً اور ہمارے ملک پاکستان نے خصوصاً اپنی اپنی سرزمین کے جملہ طرفین پھیلا دیے تھے۔ وہ جہاں چاہتے، جیسے چاہتے اور جو بھی کاروبار کرتے ان پر کوئی چیک نہیں تھا، ان پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ وہ جہادی اور اعتمادی تھے اور ہمارا سرمایہ وار اور سرمایہ افتخار تھے۔

لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد ساری دنیا کے ساتھ ساتھ ہم نے بھی ان سے اس طرح منہ موڑ لیا جیسے کہ ہمارے ان سے کبھی تعلقات رہے ہی نہیں یا افغانی ہمارے سرے سے ہمسایہ ہی نہیں بلکہ کسی دیرینہ دشمن ملک کے لوگ ہیں۔ ہم نے ان کے سفیروں اور وزیروں کو بھی نہیں بخشا بلکہ بخشش کے طور پر مطالبہ کرنے والوں کے حوالے کیا۔

افغانستان میں بد قسمتی سے گزشتہ چالیس پینتالیس سال سے حالات مستحکم ہی نہیں رہے کہ افغانیوں کا انخلاء افغانستان میں دل جمعی سے رکا رہے۔ کسی نہ کسی صورت میں یہ انخلاء جاری و ساری رہا حتی کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دو دو ادوار میں بھی نہیں تھم سکا اور رہی سہی کسر حالیہ طالبان حکومت نے پوری کی اور افغان مہاجرین اتنی بڑھی تعداد میں ملک سے نکل گئے جو پاکستان سمیت ایک بار پھر ساری دنیا میں پھیل گئے۔

جہاز کے جہاز افغان مہاجرین سے بھر بھر کر نکالے گئے۔ اس اثناء میں منتقلی کی عجلت میں کوئی جہازوں سے لٹکتے ہوئے مرے اور کوئی جہازوں کے ٹائروں کے نیچے  کچلے بھی گئے لیکن ملک سے نکلنے پر ہر صورت میں تلے ہوئے تھے۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے پر اس طرح انحصار رکھتے ہیں کہ دونوں جانب آنا جانا لوگوں کا لگا رہتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں اقوام متحدہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی ایگریمنٹ ہوا جس کے مطابق افغان مہاجرین کو پاکستان میں پاکستانی نادرا کارڈ کے طرز پر پی او آر ( پروف آف رجسٹریشن ) کارڈ دیا جائے گا۔ جو تین سال تک کار آمد ہو گا اور یہ ہر تین سال بعد اس ایگریمنٹ کے ری نیول کے بعد ری نیو کیا جائے گا اور یہ وہ افغان مہاجر ہوں گے جو باضابطہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہوں گے اور جو افغانی اس کارڈ کا حامل نہیں ہو گا وہ افغان مہاجر نہیں کہلائے گا وہ غیر ملکی تصور ہو گا۔

گزشتہ بیس سالوں کے دوران یو این ایچ سی آر اور شارپ این جی او کے وساطت سے بہت سارے افغان مہاجرین کو قانونی طور پر ان کی مرضی سے بارڈر کراس کرایا گیا اور جاتے وقت یو این ایچ سی آر سو سو ڈالر ہر فرد کو دیا کرتے تھے لیکن بد قسمتی یہ تھی کہ چند دنوں یا ہفتوں کے بعد کچھ لوگ یا زیادہ تر لوگ غیر قانونی طور پر اگر تورخم سے جاتے تو چمن سے گھوم کر واپس پاکستان آتے اور اگر چمن سے بارڈر کراس کرتے تو تورخم کے راستے واپس پاکستان آ جاتے تھے اور یہ غیر قانونی آئے ہوئے افغان پھر قانونی افغان مہاجرین کے لئے نہ صرف مسائل پیدا کرتے بلکہ اب تک پیدا کرتے آ رہے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ آئے دن کراچی یا اندرون سندھ میں اگر ایک طرف غیر قانونی افغانی پکڑے جاتے ہیں تو ساتھ ساتھ پی او آر کارڈ کے حامل افغانیوں کو بھی دھر لیا جاتا ہے جس پر پکڑے جانے والے افغانیوں کا عدالتوں میں اپنے وکیلوں سے یہ بھی استفسار ہوتا ہے کہ وہ پی او آر کے حامل تھے لیکن گرفتاری کے بعد پولیس یا سیکیورٹی اہلکار ہم سے تلاشی میں لے گئے اور ہمیں غیر قانونی افغان تارکین وطن ظاہر کر کے ہم پر جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔

عمران خان کی حکومت میں نہ صرف پی او آر کے حامل افغان مہاجرین کو بینک میں اکاؤنٹس کھولنے کا حق دیا گیا تھا بلکہ عمران خان ان کو پاکستانی شہریت دینے کا بھی خواہاں تھے لیکن ان ہی کی حکومت میں یہ بات پھر پس پشت چلی گئی۔

حالیہ ایشیا کپ میں افغان تماشائیوں کی جانب سے پاکستانیوں پر تشدد اور پاکستانی جھنڈوں کے جلانے کے واقعات کے بعد پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا جو تا حال نظر آ رہا ہے لیکن اس بریک ڈاؤن میں وہ افغان شہری ہی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جو پاکستان افغانستان اور یونائیٹڈ نیشن کے سہ فریقی معاہدے کے تحت قانونی ہیں جس کے خلاف کسی بھی حوالے سے ایف آئی آر یا ٹرائل نہیں ہو سکتا اگر وہ ویلڈ کارڈ کسی بھی افغانی کے ساتھ دستیاب ہو۔

میں خود جب دو ہزار سات اور آٹھ میں کراچی میں شارپ این جی او کی وساطت سے یو این ایچ سی آر کے ساتھ ایک اور آر ایس ڈی پروجیکٹس پر کام کر رہا تھا تو اس سلسلے میں کئی افغان مہاجر جو پی او آر کارڈ کے حامل تھے نہ صرف ان کو عدالتوں سے باعزت چھڑوائے بلکہ ہر ضلع کے سطح پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سے کوارڈینیشن میٹنگز اور سیمینار کیے اور پی او آر کارڈ کی اہمیت اورحیثیت پر متعلقہ حکام کو آگاہ کرتے رہتے تھے اور پھر کافی حد تک یہ مسئلہ حل کیا گیا تھا۔

ہاں اگر کوئی کریمنل ایکٹیویٹی میں ملوث پایا جاتا تھا تو وہ اگر ویلڈ کارڈ کا حامل بھی ہوتا وہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتا تھا جس طرح کہ پی او آر کارڈ کے حامل نہ ہوتے ہوئے کوئی ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا تھا۔

لیکن حالیہ دنوں میں یہ مسئلہ پھر سے شروع ہو چکا ہی اور پی او آر کارڈ کے حامل افراد کو بھی اٹھایا جاتا ہے جو کہ کسی بھی حوالے سے یہ قانونی قدم نہیں ہے۔

اور افغان مہاجرین کے حوالے سے اب یہ کراچی اور دیگر شہروں میں افغان کونسلیٹس کا عموماً اور اسلام آباد ایمبیسی کا خصوصاً، یو این ایچ سی آر اور اس پر کام کرنے والے این جی اوز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں سے کوارڈینیشن میٹنگز رکھیں اور ان کو اس سلسلے میں اگائی دیں تاکہ غیر قانونی افراد کے ساتھ قانونی لوگوں کا حق مجروح نہ ہو۔

دبئی اور دیگر ممالک میں افغان بھائیوں سے مؤدبانہ خواست ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریزاں رہیں جس کی وجہ سے ان کے اپنے افغان بھائیوں کو نقصان اٹھانا پڑے بلکہ ان کے ان غلط اعمال کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments