صلیبی جنگیں اور ان کے اثرات


”یروشلم“ اسلام، یہودیت اور عیسائیت تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مقدس شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ان تینوں مذاہب میں اس کی بہت اہمیت ہے۔

63 ق م میں قدیم رومن سلطنت نے فلسطین کو فتح کر لیا تھا۔ اور یوں یروشلم اس کے زیر تسلط آ گیا۔ 132 عیسوی میں جب یہودیوں نے رومی تسلط کے خلاف شدید بغاوت کر دی تو رومی حکومت نے اس کو کچل کر یہودیوں کو سلطنت کے مختلف حصوں میں منتشر کر دیا۔ یہودیوں کے اس طرح بکھیرنے کو Diaspora کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگلے 500 سال تک یہاں کے صورت حال میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں آئی۔ پھر 7 ویں صدی عیسوی ( 638 ع ) میں یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے دور خلافت میں مسلمانوں کے زیر تسلط آ گیا۔ خلفاء راشیدین اور امیہ دور کے بعد یہ عباسیوں کی سلطنت کا حصہ رہا۔

11 ویں میں عباسی سلطنت کمزور ہو گئی تھی۔ تو ان سے فلسطین اور یروشلم پر مصر کے فاطمیوں نے قبضہ کر لیا۔ اسی صدی کے وسط میں ایشیا کوچک کے سلجوق ترک ”بالادستی حاصل کر کے خلفاء بغداد کے“ سر پرست بن گئے تھے اور فاطمیوں سے فلسطین اور یروشلم دوبارہ حاصل کر لیے تھے۔ مگر صدی کے اخیر میں سلجوق نا اتفاقی کا شکار ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر آپس میں دست و گریباں تھے۔

ایسے میں بازنطینی ( مشرقی رومی سلطنت ) کے بادشاہ کی دعوت پر لاطینی ( کیھتولک) یورپ کے پوپ ( اربن دوم ) بے یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے جنگوں کا آغاز کر دیا۔ ان کو ”صلیبی جنگیں“ کہا جاتا ہے۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ دو سو سال ( 1095 س 1291 ) تک عرصے پر محیط ہے۔ ان جنگوں کا بنیادی محرک اگرچہ مذہبی تھا تاہم ان میں کچھ دوسرے عوامل ( معاشی سیاسی اور مہماتی وغیرہ ) بھی کارفرما تھے۔

پہلی صلیبی جنگ کے لیے یورپ بھر سے مختلف حکمران شہزادے، ۔ لارڈز ( امراء ) اور عام عیسائی، 1095 میں لشکر بنا کر روانہ ہوئے تھے۔ یہ صلیبی لشکر 1097 کو ”قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ وہاں سے“ انطالیہ ”پر سے طویل سفر کر کے لمبے محاصرے کے بعد شام پر قبضہ کر لیا۔ “ جون 1099 ”میں یروشلم کو فتح کر کے یہودیوں اور مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا۔ مقامی رقابتوں اور مذہبی اختلافات کے باعث سلجوق حکمران عیسائی حملہ آوروں کے خلاف متحد نہ ہو پائے۔ یروشلم پر قابض ہونے کے علاوہ“ صلیبیوں نے ”شام اور فلسطین“ میں چار چھوٹی ریاستیں ( یروشلم، انوٹوچ، ٹریپولی اور عدیسہ ) بھی قائم کر لیں۔ جن کے خلاف مسلمان قیادت نے جہاد کا اعلان کر دیا۔ 1144 میں شام میں صلیبیوں کی قائم۔ کردہ ریاست ”عدیسہ” پر نور الدین زنگی کی قیادت میں سلجوق ترک مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ جس پر پوپ ”یوجینس“ نے دوسری صلیبی جنگ ( 1147 تا 1149 ) کا حکم دے دیا۔ فرانس اور جرمنی کے لشکر مشرقی وسطی آ گئے مگر ناکام لوٹے۔

1174 کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی جو مصر اور شام میں حکمران بن گیا تھا علاقے میں ایک مضبوط مسلمان رہنما کی حیثیت سے ابھر آیا تھا۔ 1187 میں اس نے فلسطین پر حملہ کر کے ”یروشلم“ کو عیسائیوں کے تسلط سے آزاد کرایا۔ انو ٹوچ اور طائر کے سوا تمام شہر صلیبیوں سے بازیاب کرا لیے۔ یروشلم کی بازیابی کے لیے پوپ کے حکم پر تیسری صلیبی جنگ 1189 تا 1192 ) شروع کی گئی جس میں یورپ کے طاقتور حکمرانوں انگلستان کے رچرڈ، شیر دل ”فرانس کا“ آگسٹس فلپ ”اور جرمنی کا“ فریڈریک برباروسہ ” نے حصہ لیا۔ برباروسہ ”دریا میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا۔ اور اس کی زیادہ تر فوج واپس چلی گئی۔

رچرڈ اور فلپ کے لشکر 1191 کو فلسطین پہنچ گئے اور ایکر کے ”بندرگاہ کا محاصرہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا مگر“ مسلمانوں سے ”یروشلم“ چھین نہ سکے۔ ”ایکر“ پر قبضہ کے بعد فرانس کا فلپ اور دوسرے چھوٹے حکمران واپس چلے گئے اور سلطان صلاح الدین کے خلاف لڑنے کے لیے انگلستان کا ”رچرڈ“ رہ گیا۔

صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ کے ساتھ 1192 میں معاہدے کے تحت بحیرہ روم کے کچھ ساحلی شہر صلیبیوں کے پاس رہنے دیے اور ہر سال محدود تعداد میں عیسائی زائرین کو یروشلم کی زیارت کی اجازت دے دی۔

پوپ ”انوسینت سوم نے چوتھے صلیبی جنگ ( 1202 تا 1204 ) کا آغاز کیا۔ اس بار اس میں زیادہ تر لشکر فرانس کا تھا جس کو ”وینس“ کے تاجروں نے جہاز مہیا کیے۔ چونکہ صلیبیوں کے پاس وینس والوں کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے خاطر خواہ سرمایہ نہیں تھا جس کے باعث صلیبیوں نے پہلے ہنگری ”کے عیسائی بادشاہ کے زیر انتظام“ زارا ” بندرگاہ پر قبضہ کر لیا۔ اور پھر عیسائی بازنطینوں کے دارالحکومت ”قسطنطنیہ“ پر حملہ کر کے قتل عام اور لوٹ مار کے ساتھ اس پر قبضہ کر لیا۔ صلیبیوں کے اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے خلاف اس حرکت نے صلیبی جوش و خروش اور ”پوپ“ کی اخلاقی اتھارٹی کو شدید دھچکا پہنچایا۔ (قسطنطنیہ پر قبضے کے خلاف بازنطینی عیسائی مغربی عیسائیوں سے 60 سال تک لڑتے رہے اور 1261 میں ان سے قسطنطنیہ دوبارہ حاصل کر لیا )

مغربی عیسائیوں نے اس کے بعد بھی کئی صلیبی مہمات برپا کیے۔ جن میں ایک ( پانچویں صلیبی مہم سے پہلے ) 1212 میں ”بچوں کا کروسیڈ“ بھی تھا۔ جرمنی کے ایک راہب کی قیادت میں ہزاروں معصوم بچوں کا کروسیڈ روانہ کیا گیا۔ ان کے سات بحری جہازوں میں دو سمندری طوفان کا شکار ہونے جس سے ان میں سوار ہزاروں بچے ڈوب مر گئے۔ بقیہ پانچ جہاز جو بحیرہ روم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے مگر وہاں پر ان پر موجود بچوں کو بحری قذاقوں نے پکڑ کر کے غلام بنا کر بیچ دیا۔ 1219 میں پانچویں صلیبی مہم کے دوران مصر میں دامیتا ”پر قبضہ کر لیا گیا۔ مگر وہ جلدی ہاتھ سے نکل گیا یوں یہ مہم۔ بھی بے نتیجہ رہی

1228 میں چھٹی صلیبی جنگ مقدس رومن بادشاہ۔ جرمنی کے ”فریڈریک دوم“ کی قیادت میں برپا کی گئی یہ اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس موقع پر کوئی خون خرابہ یا لوٹ مار نہ ہوئی بلکہ جنگ کے بجائے 1229 میں مصر کے سلطان کے ساتھ معاہدے پر منتج ہوا۔ جس کے تحت یروشلم اور چند دوسرے مقدس شہر 10 سال کے لیے عیسائیوں کے حوالے کیے گئے۔ 1244 میں سلطان مصر نے یروشلم پر پھر سے قبضہ کر لیا۔

1250 میں فرانس کے بادشاہ لوئیس نہم نے ساتویں صلیبی جنگ کے تحت مصر پر حملہ کر دیا۔ سلطان مصر توران شاہ نے اس کو قید کر لیا۔ عیسائیوں نے زر فدیہ دے کر شاہ فرانس کو سلطان مصر کے قید سے رہائی دلوائی۔ چند سال بعد اسی شاہ فرانس نے تیونس پر حملہ کر دیا مگر وہاں وہ تپ دق میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا۔ یوں یہ صلیبی جنگ بھی ناکام ہو گئی

1268 میں فرانس کے اگلے بادشاہ لوئیس دہم اور برطانیہ کے ایڈورڈ پرنس آف ویلز نے مل کر فلسطین اور شام پر چڑھائی کی مگر مصر کے مملوک سلطان بیبرس ”نے ان کو شکست دے کر یہ آخری صلیبی جنگ ناکام بنا دی

اس زمانے میں وسط ایشیا اور مشرقی وسطی کے مسلمانوں کو منگولوں کے یلغار کا بھی سامنا رہا تھا۔ سلطان ”بیبرس“ نے نہ صرف صلیبیوں کو ناکام بنا دیا بلکہ ہلاکو خان کے منگولوں کو بھی شام و فلسطین سے نکالا۔ منگولوں کا خطرہ فرو کرنے کے بعد 1291 تک ترکوں نے تمام عیسائی قلعے فتح کر کے صلیبی جنگوں کا قصہ پاک کر دیا۔ یوں صلیبیوں کا یروشلم سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کا تقریباً 2 سو سال پر محیط جدوجہد مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔

صلیبی جنگوں کے اثرات

ان جنگوں میں بے پناہ قتل و غارت ہوئی 1

جنگوں میں جانی اور مالی تباہی سے یورپی ”لارڈز ( امراہ) کی طاقت کمزور ہونے کی وجہ سے فیوڈل ازم زوال پذیر اور یوں بادشاہتیں مضبوط ہو گئیں۔

2۔ صلیبی جنگوں کی ابتدا میں اہل کلیسا کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا مگر بعد کی مہموں میں ان کے محرکات معاشی اور سیاسی ہو جانے سے کلیسا کے رہنماؤں کی ساکھ گر گئی۔

3مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین باہمی تعصب بڑھ گیا جبکہ دوسری طرف قسطنطنیہ پر صلیبیوں کے قبضے اور قتل گری سے مغربی چرچ اور مشرقی یونانی چرچ کے درمیان عناد میں بھی شدت آ گئی

4۔ لاطینی مغرب اور مشرقی دنیا کے

باہمی تجارت میں اضافہ ہوا۔ جنگوں کی وجہ سے بحیرہ روم کے ذریعے ایشیا اور یورپ کے درمیان موثر رابطہ قائم ہوا، ۔ اٹلی کے تجارتی شہروں ”وینس“ اور ”جنوہ“ نے تجارتی کوٹھیاں تعمیر کر لیں۔ یوں سب سے زیادہ فائدہ اطالوی تاجروں کو ہوا۔

5۔ مغربی لوگ مشرق کے متعدد نئی چیزوں ( مختلف کھانے پھل، لباس اور طرز تعمیر، آلات موسیقی، جنگ کے بعض ہتھیار وغیرہ ) سے متعارف ہوئے جو بعد میں ان کے کلچر اور ادب کا حصہ بنے۔

جہاں تک علمی اور فکری اثرات کا تعلق ہے تو مورخین کے مطابق یورپ پر کچھ زیادہ نہیں پڑے کیونکہ صلیبیوں کا اسی دوران مسلمانوں کے علمی مراکز سے زیادہ واسطہ نہیں پڑا۔ مشرقی وسطی کے بجائے لاطینی عیسائی دنیا ( مغربی یورپ ) پر مسلمانوں کا علمی و فکری اثر ”اسپین اور سلسلی“ سے ہوا جو 12 اور 13 ویں صدیوں میں مغرب کی فکری اور کلچرل بیداری کا محرک ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments