تحریک انصاف سے نمٹنا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے


یہ درست ہے کہ جمہوریت میں احتجاج اور اختلاف رائے کی آزادی ہر شخص کو حاصل ہے۔ ہمارا آئین ہر شخص کو پر امن احتجاج اور آزادی اظہار رائے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے تو کجا عدلیہ بھی کسی شہری کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت خواہ اس کی نمائندگی کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو۔ اس کی جانب سے عوام کے بنیادی مسائل سے حکومتی عدم توجہی اور چشم پوشی پر آواز بلند ہونا کسی بھی طرح غیر قانونی اور ماورائے آئین قرار نہیں دیا جا سکتا۔

نا ہی دنیا کا کوئی قانون کوئی جوڈیشل سسٹم کسی ایسے مفروضے کی بنیاد پر کہ فلاں شخص مستقبل میں گھر سے نکل کر فلاں جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے اس کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے کا حکم پیشگی جاری کر سکتا ہے۔ اسی طرح ملکی آئین یہ اجازت بھی فراہم کرتا ہے کہ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق جو چاہے سیاسی عقیدہ رکھے اسے آزادی حاصل ہو گی۔ ان حقوق اور آزادیوں کی لیکن چند حدود و قیود اور سیفٹی بیریئرز بھی ہیں جن کی پاسداری لازم ہے۔

مثلاً جیسے کسی شخص کو پر امن احتجاج کی آزادی ہے ویسے ہی آزادانہ نقل و حمل ہر شہری کا آئینی و قانونی حق ہے۔ کسی بھی شاہراہ یا عوامی مقام پر اجتماع خواہ کتنے ہی ارفع مقصد کی خاطر ہو اگر اس سے نقل و حمل پر اثر پڑے تو وہ قانون شکنی کے زمرے میں ہی تصور ہوتا ہے۔ کسی بھی احتجاج کے دوران رکاوٹیں کھڑی کر کے عام لوگ جن کا کسی سیاسی سرگرمی سے کوئی لینا دینا نہیں ان کی نقل و حرکت متاثر کرنے کا کسی بھی جمہوری معاشرے میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔

تحریک انصاف کا تو مقصد ہی بالکل نا جائز اور غیر آئینی ہے لہذا اسے کس طرح عوام کی زندگی اجیرن کرنے اور نقل و حرکت محدود بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے احتجاج اور لانگ مارچ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی ان کی مرضی سے ہو ورنہ کم از کم اس وقت تک موخر ہو جائے جب تک انہیں اقتدار نہیں مل جاتا۔ یہ دونوں مطالبات غیر آئینی ہیں۔ افواج پاکستان کے سربراہ کی تقرری وقت پر ہونا آئینی تقاضا ہے اور اس میں تاخیر ادارے کے اندر بے چینی پیدا کرنے کے ساتھ ملکی سلامتی کے لیے بھی نقصان کا سبب ہو سکتی ہے۔

تین سال میں قبل جب موجودہ چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی اس وقت بھی ہماری رائے یہی تھی اور اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عہدے پر تقرری اپنے وقت پر ہونا لازم ہے۔ اسی طرح نئے انتخابات موجودہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد ہی ہو سکتے ہیں یا پھر ایک اور طریقہ یہ ہے شہباز شریف خود اسمبلی تحلیل کر دیں۔ اس کے سوا آئینی لحاظ سے انتخابات کرانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ عمران خان کے یہ دونوں غیر آئینی مطالبات چونکہ پورے نہیں ہو رہے اسی لیے پہلے وہ ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھاتے رہے تاکہ وہ ماضی کی طرح مداخلت کریں اور حکومت کو تحریک انصاف کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔ لیکن عسکری اداروں کی طرف سے حسب منشاء معاونت نہ ملنے کے بعد اب وہ اپنا غصہ اور ہیجان عوام کی زندگی اجیرن بنا کر نکالنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں انارکی پیدا ہو جائے اور اگر ان کی جگہ نہیں بنتی تو پورا نظام ہی تہس نہس ہو کر رہ جائے۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے تحریک انصاف کی اس فاشسٹ اور دہشتگردانہ ذہنیت کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری بڑی حد تک اس جماعت سے متعلق ریاستی اداروں کے نرم رویے پر عائد ہوتی ہے۔ دو ہزار چودہ کے دھرنے میں تحریک انصاف ڈی چوک دھرنے پر کیا کیا نہیں کر چکی۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر دھاوا بولا۔ وزیر اعظم ہاؤس پر قبضے کی کوشش کی۔ سول نا فرمانی کا اعلان کیا۔ عوام کو یوٹیلٹی بلز جلانے کی ترغیب دی۔ پیسہ بھیجنے اور منگوانے کے لیے پراپر چینلز کے بجائے حوالہ و ہنڈی جیسے شرمناک فعل پر عوام کو مسلسل اکسایا گیا۔

غیر ملکی سربراہان کے دورے دانستہ ملتوی کرائے جس سے معیشت نا قابل تلافی نقصان سے دوچار ہوئی۔ قانون پر عملدرآمد اور سرکاری رٹ بچانے کی کوشش میں مصروف افسران کو سر عام ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دیں۔ حتی کہ اس وقت کے منتخب وزیر اعظم کو قتل کرنے کی سازش تک کی گئی۔ عمران خان بلا خوف سرکاری افسران کو یہ کہہ کر دھمکاتے رہتے ہیں کہ، اقتدار میں آنے کے بعد جن افسران نے ان کے کارکنان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا انہیں پھانسی پر لٹکائیں گے۔

اس کے بعد لاک ڈاؤن کے نام پر جو تماشا ہوا وہ بھی لازما ہر یاد داشت میں محفوظ ہو گا۔ انتظامیہ کے ساتھ دھونس دھمکی، مار کٹائی، لگائی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے بھاری مشنری کا استعمال اور پولیس موبائل تک روک کر اس سے ملزمان عمران خان صاحب نے بذات خود چھڑائے۔ اپنی نوعیت کا یہ واقعہ بھی واحد تھا، ایک وفاقی اکائی کے سربراہ نے سرکاری وسائل کی مدد سے لشکر لے کر وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کی۔ ان تمام جرائم کی سزا تحریک انصاف کو دینے کی بجائے الٹا اس وقت کی حکومت کے اختیارات میں ریاستی اداروں کی طرف سے مداخلت شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے انتخابات کے دوران اور اس کے بعد بھی کیا کیا ہوا اور تحریک انصاف کی کس طرح سر پرستی ہوئی وہ اب دہرانے کی ضرورت نہیں۔

حیرت ہے کہ اب بھی کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت تحریک انصاف کی اس دہشتگردی پر خاموش کیوں ہے اور کوئی کارروائی کیوں نہیں کر رہی۔ یہ سوال کرنے والے یا تو ملکی نظام سے بالکل ہی لا علم ہیں یا جانتے بوجھتے فکری بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے خلاف کارروائی ہونا تو درکنار ایف آئی اے یا الیکشن کمیشن انہیں معمولی نوٹس بھیج دے تو فی الفور عدالت کی طرف سے انہیں ”ہراساں“ نہ کرنے کا حکم آ جاتا ہے۔

پنجاب اس وقت تحریک انصاف کی شر پسندی کا مرکز ہے وہاں کی حکومت جس طرح پلیٹ میں ڈال کر عمران خان کو پیش کی گئی تھی اس کے خلاف اگر وفاق کوئی کارروائی کرے تو کیا ضمانت ہے عدالتوں کی جانب سے وہ اقدام ریورس نہیں کیا جائے گا؟ ریاستی اداروں کا نیوٹرل رہنے کا عزم خوش آئند ہے لیکن اداروں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی بے جا سر پرستی سے ہی تحریک انصاف اتنی طاقتور ہوئی تھی لہذا اس جماعت کی حقیقت بے نقاب کر کے اس کو اصل سائز میں لانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ ملکی سلامتی اور جمہوریت کے مستقبل کو جو نقصان پہنچ رہا ہے محض نیوٹرل ہونے سے اس کا مداوا نہیں ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments