ایلون مسک اڑتے ہوئے ٹویٹر کے پر نہیں گن سکے


یوں لگتا ہے جیسے برادر عزیز ایلون مسک ٹویٹر خریدنے کے بعد کنگال ہو گئے ہیں، انہوں نے اپنی تمام تر جمع پونجی مبلغ 44 ارب ڈالر اس فضول سی ایپ میں جھونک دی ہے اور اب پچھتا رہے ہیں کہ یہ کیا کر بیٹھے۔ کبھی اپنی کمپنی ٹیسلا کے حصص بیچتے ہیں تو کبھی ٹویٹر استعمال کرنے والوں سے آٹھ ڈالر فی ماہ فیس وصول کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ امسال کے آغاز میں جب موصوف نے ٹویٹر خریدنے کا منصوبہ بنایا، اس وقت سے لے کر اب تک، آنجناب ٹیسلا کے 20 ارب ڈالر کے حصص فروخت کرچکے ہیں، ٹیسلا کمپنی کے شیئر کی قدر میں 50 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹیسلا گاڑی کے سٹیئرنگ میں کوئی خرابی نکل آئی تھی جس کی وجہ سے کمپنی کو دنیا بھر سے چالیس ہزار گاڑیاں واپس منگوانی پڑیں، گویا یہ ایک علیحدہ نالائقی ہے جو مسٹر مسک کے کھاتے میں لکھی جا رہی ہے۔

ادھر ٹویٹر خریدنے کے بعد موصوف کو پتا چلا ہے کہ اس ’پرندے‘ کا روزانہ کا خرچہ چالیس لاکھ ڈالر ہے یعنی ٹویٹر روزانہ چار ملین ڈالر گھاٹے میں جا رہا ہے، تب سے عالی مرتبت سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس سفید ہاتھی کا کیا کیا جائے۔ ویسے تو ٹویٹر کا ذریعہ آمدن اشتہارات تھے مگر جب سے مسٹر مسک ٹویٹر کے مالک بنے ہیں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ٹویٹر سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک نیا درد سر ہے۔ ٹویٹر کا خرچہ گھٹانے کے لیے مسٹر مسک نے اس کے بھارتی نژاد سی ای او سمیت نصف سے زائد ملازمین فارغ کر دیے ہیں، بورڈ آف ڈائریکٹر تحلیل کر کے وہاں ٹیسلا سے لا کر ’اپنے بندے‘ بٹھا دیے ہیں اور اب فرماتے ہیں کہ ٹویٹر کے تصدیق شدہ کھاتے (ویریفائیڈ اکاؤنٹ) جسے عرف عام میں نیلے نشان والا یا بلیو ٹک اکاؤنٹ کہتے ہیں، سے ہر ماہ آٹھ ڈالر وصول کیے جائیں گے۔

موصوف یہ تمام باتیں ٹویٹ کے ذریعے، اپنے تئیں، بے حد تخلیقی اور مخولیا انداز میں کرتے ہیں، مثلاً جب انہوں نے ٹویٹر خریدا تو چہکارے کہ ’پرندے کو آزاد کروا لیا گیا ہے۔ ‘ یہ ٹویٹ پڑھ کر مجھے اپنے ہاں چڑیاں فروخت کرنے والے یاد آ گئے جو جال میں بہت سی چڑیاں قید کر کے پھرتے ہیں اور جنہیں کوئی دردمند دل رکھنے والا پیسے دے کر آزاد کروا لیتا ہے۔ بندہ ایلون مسک سے پوچھے کہ کیا ٹویٹر ایران یا چین کی قید میں تھا جہاں سے اسے آزاد کروا لیا گیا ہے یا پھر وہ آزادی اظہار کی بے جا پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا جو تم نے خریدتے ہی ختم کردی ہیں؟

ظاہر ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ اسی طرح نیلے نشان والوں سے پیسے اینٹھنے کے لیے موصوف نے ایک کارٹون بنا کر ٹویٹ کی جس میں دکھایا گیا کہ آپ کافی کے ایک کپ پر آٹھ ڈالر آسانی سے خرچ کر دیتے ہیں جو آدھے گھنٹے میں ختم ہوجاتی ہے مگر ایک ماہ کے آٹھ ڈالر آپ کو زیادہ لگ رہے ہیں۔ اس پر ایک ستم ظریف نے جواباً کارٹون بنایا کہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ سات ارب ڈالر میں ہو سکتا ہے لیکن آپ کے لیے 44 ارب ڈالر کا ٹویٹر خریدنا زیادہ اہم تھا۔

ویسے میں ذاتی طور پر نیلے نشان والوں سے پیسے وصول کرنے کے حق میں ہوں کیونکہ میرا اپنا ٹویٹر کھاتہ اب تک نیلا نہیں ہو سکا حالانکہ میں نے متعدد مرتبہ درخواست جمع کروائی ہے، ہر دفعہ ٹویٹر کی جانب سے گھڑا گھڑایا جواب آ جاتا ہے اور اب تو یہ جواب درخواست جمع کروانے کے پانچ منٹ کے اندر اندر ہی آ جاتا ہے حالانکہ اتنے کم عرصے میں تو درخواست کی پڑتال بھی نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف ٹویٹر نے ایسے ایسے بھنگیوں کو ’ویری فائڈ اکاؤنٹ‘ کی سند دے رکھی ہے کہ گمان ہوتا ہے جیسے پڑتال کرنے والے بھنگ پی کر یہ کام کرتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے جیسے عزیزی ایلون مسک نے ان بندوں کو فارغ کر کے اچھا ہی کیا، یونہی مفت کی روٹیاں توڑ رہے تھے لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ ٹویٹر کچھ ملازمین کو واپس بھرتی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ ’انہیں غلطی سے فارغ کر دیا گیا تھا‘ ۔

امیر بندے کو دانشور اور فلسفی بننے کا بہت شوق ہوتا ہے، اس کے پاس کروڑوں اربوں ڈالر بھی آ جائیں وہ چین سے نہیں بیٹھتا، اس کا دل کرتا ہے کہ دنیا اسے محض پیسہ کمانے والا تاجر نہ سمجھے بلکہ اسے ایک تخلیقی ذہن کا مالک اور ایسا عظیم فنکار یا دانشمند انسان سمجھے جو آنے والے زمانوں کی خبر رکھتا ہے اور دور اندیش اور مدبر ہوتا ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے ’جنہاں دے گھر دانے اوہناں سے کملے وی سیانے۔ ‘ (دولت مند گھرانوں کے سادہ لوح افراد بھی عقل مند ہی سمجھے جاتے ہیں ) ۔

یہ محاورہ ارب پتی تاجروں پر پورا اترتا ہے۔ مارک زکر برگ نے فیس بک بنائی، اس کی مدد سے وہ جوانی میں ارب پتی بن گیا اور دنیا نے اسے ایک دانشمند شخص تسلیم کر لیا حالانکہ ایک ایپ بنانے سے کوئی شخص دانشمند نہیں بن جاتا۔ ایلون مسک بلاشبہ ایک کامیاب کاروباری انسان ہے، دنیا کا سب سے دولت مند شخص ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ہر فیصلہ درست اور اس کی ہر بات دانش میں لپٹی ہوئی ہو۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ ایلون مسک ٹویٹر سے کتنے پیسے کمانے میں کامیاب ہو گا، ہو سکتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے کیونکہ اس قدر دولت مند شخص کا کسی سودے میں گھاٹا کھانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، لیکن فی الحال تو یوں لگتا ہے جیسے اڑتی چڑیا کے پر گننے والا یہ ارب پتی تاجر ٹویٹر خریدتے وقت اس چڑیا کے پر گننا بھول گیا تھا!

(یہ کالم آج 10 نومبر 2022 کو Independent Urdu۔ میں شائع ہوا)

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments