ایک خط علامہ اقبال کے نام


حکیم الامت، شاعر مشرق، علامہ محمد اقبال صاحب
بصد عجز و انکسار سلام

آج ساری قوم آپ کا دن مناتی رہی مگر اپنی تو وہی بے ڈھنگی چال یعنی کہ ہمارا حجرہ جہاں بستر پہ لیٹے لیٹے ہمیں نادر قسم کے خیالات سوجھتے رہتے ہیں۔ ایک ہم ہی کیا ساری قوم اب چھٹی کا دن ایسے ہی مناتی ہے۔ بہت تیر مارا تو ٹی وی کے کان مروڑ لیے ۔ ٹی وی سے یاد آیا کہ آج آپ کے مرقد پہ گارڈ کی تبدیلی کی چند جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملیں فی الحال تو انہی پہ گزارا کیجیئے۔ ہو سکتا ہے کہ شام کو ٹی وی کی سکرین پہ کچھ بقراط آپ کے فلسفے اور شخصیت کے بارے گلا پھاڑ پھاڑ کر گوہر افشانیاں کرتے پلٹ کر جھپٹیں اور جھپٹ کر پلٹیں۔ مگر وہ نظارہ ہم دیکھ نہیں پائیں گے کہ ہمارے ماہر امراض قلب نے ایسا ہر پروگرام دیکھنے کی ممانعت کر رکھی ہے جس سے حرکت قلب میں اتھل پتھل واقع ہونے کا اندیشہ ہو۔ آج کئی برسوں بعد یہ چھٹی ملی ہے اسے کسی نہ کسی طور تو گزارنا ہی ہے تو سوچا کہ آج پروفیسر کی جگہ آپ کو خط لکھا جائے۔

آج کل کرکٹ کا سیزن ہے۔ لوگ آدھی آدھی رات کو اٹھ کر میچ دیکھتے ہیں اور اپنا بلڈ پریشر خوامخواہ ہائی کرتے ہیں۔ جیت گئے تو بلے بلے وگرنہ ایسی ایسی مغلظات کہ توبہ ہی بھلی۔ ہمیں نہ تو اس کھیل سے دلچسپی ہے نہ ہی اس کے کھلاڑیوں سے۔ آپ بھلے ہمیں بد ذوق سمجھیں مگر یاد رہے کہ دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ ہمارے بس میں ہو تو اس موئے کھیل پر ہی پابندی لگوا دیں اور گیند کو سمیع اللہ اور کلیم اللہ کے درمیان ہی ڈولنے دیں۔ مگر کیا کریں کہ ہاکی کو مرحوم ہوئے مدت ہوئی اب تو اس کے میدان نا صرف سونے ہوئے بلکہ وہاں بچھی آسٹروٹرف بھی پھٹ پھٹا کر برابر ہو چکی۔ گھر بیٹھا ہر بقراط اپنے آپ کو کرکٹ کا ماہر اعظم ہی نہیں بلکہ کلائیو لائیڈ اور برائن لارا کا جانشین تصور کرتا ہے اور یہ ساری دانشوری فیس بک پہ ہوتی ہے۔

آپ کے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا یہ آج کل کا نیا میدان جنگ ہے۔ ففتھ جنریشن وار یہیں پہ لڑی جا رہی ہے۔ اس لڑائی بھڑائی میں آئی مت چلی جاتی ہے۔ بات ہو رہی تھی آپ کی شاعری اور فلسفے کی، یاد ہے آپ نے کہا تھا

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مگر آپ کے شاہین ہمہ وقت کمپیوٹر کی سکرین پہ کمر کسے منہ توڑ جواب دینے کو تیار بیٹھے رہتے ہیں اور وہ وہ دھوبی پٹکے دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم ایسے کمزور دل آدمیوں کو جنگ و جدل سے بہت خوف آتا ہے۔ آپ لوگ تو جنگ کی خبریں ہی پڑھا کرتے تھے مگر آج کل جنگ کہیں بھی ہو یہ چھوٹا سا ایڈیٹ باکس ہمیں اس کی تباہ کاریاں مسلسل دکھا کر دہلاتا رہتا ہے۔ گمان ہے کہ شاہین اب چالاک ہو گئے ہیں کیونکہ جو فائدہ قصر سلطانی کے گنبد پہ بیٹھنے میں ہے وہ پہاڑوں کی چٹانوں میں کہاں؟ پہاڑوں کی چٹانوں میں جا بیٹھنے والوں کا جو حشر ہوا اسے بھی تو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔ یہی کوئی پندرہ بیس سال پرانی بات ہے، خیر اس قصے کو جانے دیجیئے۔ ایک اور شعر جو حافظے میں رہ گیا ہے وہ کچھ یوں تھا

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ

بھولے بادشاہ ایسا شاید آپ کے زمانے میں ہوتا ہو گا اب تو ہر شہر میں بڑے بڑے شاہین کومپلیکس ہیں۔ یقیناً یہ تمام خبریں عالم برزخ میں آپ کو ملتی ہی رہتی ہوں گی۔ اسی موضوع سے متعلق ہمیں ایک اور شعر یاد آیا

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

مطلوب و مقصود مومن تو کیا ہے اس پہ ہماری چپ کہ ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال دامن گیر رہتا ہے اور وہ ضرب المثل بھی یاد آتی ہے کہ تو گدھی کمہار کی تو کو رام سے کوتھ؟ البتہ جو دیکھا وہ یہی ہے کہ مال غنیمت پہ ہر خاص و عام کی رال ٹپکنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہر بزعم خود مومن کا منشا و منتہا کشور حسین ہی ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب شاہین کا دست شفقت اس کے سر پہ قدم رنجہ فرمائے اور اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو۔ بزرگوار اس حمام میں سب ننگے ہیں فائدے میں تو فقط شاہین ہی ہے۔

نہیں اقبال نا امید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مٹی کتنی زرخیز ہے یہ تو جانے ساقی کہ تصرف میں تو اسی کے ہے۔ ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور شہر کے گرد و نواح کی دو لاکھ ایکڑ زرعی زمین عمارتوں کے جنگل میں بدل چکی ہے۔ لاہور ہی کیا ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ ہرے بھرے پھلدار باغ کے باغ کٹ گئے مگر کسی کے کان پہ جوں بھی نہیں رینگی حالاں کہ یہاں سے ہمیں زرمبادلہ بھی ملتا تھا یعنی کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بھی۔ مرزا ہوتے تو آموں کی ناقدری پہ کوئی مرثیہ ہی لکھ دیتے۔

اب اس کنکریٹ کے جنگل میں بسنے والوں کے کھانے کو غلہ کہاں سے آئے گا؟ اس کی فکر کسے ہے؟ ایک زمانہ تھا کہ یہاں ضرورت کے مطابق اناج پیدا کیا جاتا تھا مگر اب آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ناکافی رہتا ہے۔ دنیا بھر میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے مگر دماغ کو زحمت کون دے؟ جب تک ہماری پلیٹ بھری ہے ہمیں کیا؟ تو پوچھنا صرف اتنا ہی تھا کہ قبلہ و کعبہ کیا آپ اب بھی اپنی کشت ویراں سے پر امید ہیں؟

ہم ہمیشہ یہی سوچتے رہے کہ آپ نے یہ شعر کیا سوچ کے لکھا تھا؟
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ابھی چند دن پہلے اس کا مطلب بخوبی سمجھ آیا جب ہم نے اپنے سکونتی ملک میں ہونے والی ایک تقریب میں ہر بوڑھے، بچے اور جوان کو بشمول خواتین فلمی اور ٹی وی کے ستاروں پہ کمندیں ڈالتے دیکھا۔ ہاؤ ہو کا وہ عالم تھا کہ کیا بتائیں۔ بات کچھ ایسی ہے کہ اب اتنی گہرائی میں تو کوئی جاتا نہیں کہ ستاروں پہ کمند ڈالنے کا مطلب کیا ہے؟ دور دراز ستاروں پہ رکھا ہی کیا ہے؟ چاند پہ جانے والوں نے سارا رومانس ہی غارت کر دیا یہ بتا کر کہ وہاں گہرے گہرے گڑھے ہیں ہم ایسے تن آساں اتنا کشٹ کہاں اٹھا پاتے ہمارے لیے تو یہی ممکن تھا کہ ان ہی زمینی ستاروں پہ قناعت کر لی جائے

اس نامے کا مقصد یہ دریافت کرنا بھی ہے کہ ہم ہی کنفیوز ہیں یا آپ بھی ہماری طرح کنفیوژن کا شکار رہے کیوں کہ امر واقعہ تو یہی لگتا ہے۔ ایک طرف تو آپ نے شکوہ جیسی نظم لکھی پھر جواب شکوہ بھی لکھ ڈالی، گویا حساب برابر کر دیا۔ کبھی ملائیت کے خلاف لکھا اور کبھی کہہ دیا کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اور تو اور جن کے خلاف قوم کا لہو گرماتے رہے ان کی ملکہ کی شان میں قصیدہ بھی لکھ ڈالا۔ ایسا آپ نے کیوں کیا؟

پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ ہر زمانے کا دانشور فساد فی الارض سے ڈرتا بھی ہے اور کبھی اس سے آنا کانی بھی کر جاتا ہے۔ فتویٰ فروشوں کے ہاں پوری عبارت تیار ہوتی ہے بس نام کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی ہے تاکہ بوقت ضرورت اسے پر کیا جا سکے۔ آپ نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہو گا کہ مریض کا مرض تو چمن کے دیدہ ور سے مخفی نہ تھا۔ بس ایک ہمارے ممدوح ہی ذرا منہ پھٹ تھے جو لکھ گئے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔ اب کوئی جو بھی سوچے ان کی بلا سے، لیکن آپ تو کہہ گئے ہیں کہ

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کوئی منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ جب تک ہم بچے تھے بہت سی باتیں سر سے گزر جاتی تھیں۔ جو بتایا گیا، پڑھایا گیا وہ رٹو طوطے کی طرح رٹ لیا۔ بخدا آپ کے جانے کے بعد نکتہ وروں نے وہ وہ نکتہ آفرینیاں چھانٹیں کہ اوپر بیٹھے آپ بھی یہی سوچتے ہوں گے کہ واللہ یہ نکتہ میری نظر سے پوشیدہ کیسے رہ گیا؟ شاید ایسا سبق پڑھانا پڑھانے والوں کی مجبوری ہو، اور یہ ناس پیٹی مجبوری بہت کچھ کرا دیتی ہے۔ شعور آنے کا دعویٰ تو نہیں مگر جب سے عینک لگی ہے نظر کا زاویہ بدل گیا ہے۔ اب یہ آنکھ سات پردوں کے پیچھے بھی جھانکنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہاں کیا کیا قیامت دیکھنے کو ملتی ہے اسے جانے دیجیئے کہ وہ ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔ کہانی کیا تھی اور کیا ہو گئی؟ ایک ایسا انسان جس کا ہاتھ زمانے کی نبض پہ ہو بخوبی جانتا ہے کہ ڈوز کون سی دینی ہے۔ وہی آپ نے کیا تو شکایت کیسی؟

اس کا کچھ اظہار آپ کے فرزند ارجمند بھی کر گئے ہیں۔ آج کا زمانہ ساز شاید یہ بھول گیا ہے کہ کچھ کلام آفاقی ہوتا ہے اور کچھ زمانے کے حساب سے۔ اس عہد کے تقاضے مختلف ہیں اب ہمارے نازک کاندھے بہت سا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ ڈوز ہر زمانے میں کارگر نہیں ہوتی مگر نجانے کیوں وہ ہمیشہ اسی پہ مصر رہتا ہے؟ تعلیمی قابلیت کا یہ حال ہے کہ آپ کے کلام کے ایک بڑے حصے کی عام آدمی تفہیم ہی نہیں کر پاتا تو فلسفہ کیا خاک سمجھے گا؟

اسے طنز نہیں آج کا نوحہ سمجھیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کتابیں الماریوں میں پڑھنے والوں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ فوق البشر کوئی بھی نہیں ہے نہ نٹشے جس سے بادی النظر میں آپ متاثر لگتے ہیں، نہ آپ اور نہ کوئی اور۔ اب جبکہ آپ ان حدود و قیود سے ماورا ہو چکے ہیں تو یقیناً اس بات کی تائید کریں گے کہ انسان کو انسان رہنے دیا جانے میں ہی بہتری ہے۔

خط بہت طویل ہو گیا ہے اس دکھ درد کا اظہار بجز آپ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ کیا کریں کہ کبھی کبھار سوالوں کے کیڑے بری طرح کاٹتے ہیں تو جنوں میں انسان نجانے کیا کیا بک جاتا ہے۔ بعد میں یہی سوچتا رہتا ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ بخدا بے ادبی ہمارا وتیرہ کبھی نہیں رہا، اگر انجانے میں کچھ کہہ دیا ہے تو اس کی پیشگی معذرت

آپ کی مداح
غزالہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments