منافقت زدہ معاشرہ اور میں


معاشرہ ہے کہ چار سو منافقت کا ڈھیر؟ سوال آسان ہے، بس پوچھنے کی ہمت نہیں۔ یہ بھی منافقت ہی تو ہے۔ خیر پوچھا بھی جائے تو بھلا کس سے؟ اب منافق ہی منافق سے منافقت کی شکایت کرے تو بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ تو لہذا یہ سوال اس سے پوچھتے ہیں جو باقیوں سے کم منافق ہے۔ یعنی میں خود سے پوچھتا ہوں اور آپ خود سے پوچھیے۔ ہاں تو میری اندر کی دنیا میں بسنے والے میرے دوست، میرے ہم نشین، میرے ہم مزاج، اے اندر کی دنیا کے شہریار اس باہر کی دنیا کے، محض دکھاوے کے، شہریار سے ہم کلام ہو اور کچھ منافقت پر بات کر۔

اس دور میں وہی منافق نہیں ہے جو زندہ نہیں ہے۔
بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ گو کہ سب زندہ لوگ منافق ہیں؟
ہاں سب منافق، سب کے سب منافق، سارے کے سارے منافق۔
نہیں سب منافق نہیں۔
تو کون نہیں؟
مولانا صاحب منافق نہیں۔

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ 12 ربیع الاول میں مولویوں کے ایک طبقے نے کیسے سیزن لگایا۔ دوسرا طبقہ محرم کے انتظار میں ہے اور تیسرا طبقہ سب کو جھٹلانے کا سیزن لگاتا ہے۔ گو کہ ہر سیزن ان کا سیزن ہے۔

بند کر اپنی بکواس اے میرے اندر کے جہنمی۔
بات منافقت پر ہو رہی تھی اس پر کچھ بول۔

لے تو سن۔ منافقوں کی دنیا میں تو بھی ایک منافق ہے جو اپنے اندر کی آواز کو خاموش کروا رہا ہے۔ کیا اندر اور باہر کے تضاد کا نام ہی منافقت نہیں ہے۔ خیر تو اکیلا نہیں۔ تیری دنیا میں ہر شخص یا تو منافق ہے یا جھوٹا۔ خیر اس دور میں مکمل سچ بولتا ہی کون ہے اور جو بولتا بھی ہے وہ بھلا مکمل سچ کہاں ہوتا ہے۔ مکمل سچ بھلا بولا ہی کب گیا؟ تیری دنیا میں سچ بولا نہیں جاتا، سچ بولنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں جھوٹ سے۔

روزانہ کتنے اخبار سیاہی سے نہیں جھوٹ سے سیاہ ہوتی ہیں۔ مگر جھوٹ بھی جھوٹ کی طرح نہیں بلکہ سچ کے پیرائے میں بولا جاتا ہے۔ ہر لکھنے والا ہر پڑھنے والے کو یہی تاثر دینا چاہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا اچھا ہوں۔ دیکھو میرے خیالات کتنے اچھے ہیں۔ دیکھو میرے خیالات دنیا کو بہتر بنائیں گے۔ تیری دنیا میں ہر لکھنے والا خوشنودی بیچ رہا ہے اور ہر پڑھنے والا منافقت خرید رہا ہے۔ یہی حال یوٹیوب، بلاگس، سوشل میڈیا پوسٹس، ٹویٹس وغیرہ کا بھی ہے۔ اس دور میں اگر سچ بولا ہے تو صرف فلسفیوں نے۔

خیر زرا اپنے اندر کی منافقت پر بھی نظر کر۔ بیچارے مولوی کو لتاڑ دیا اور اب فلسفیوں کی تعریف۔ یہ ”ول ڈیورنٹ“ کو پڑھنے کا اثر نہیں ہے کیا۔ کیا یہ حرکت تیرے اندر چھپی منافقت کی عکاسی نہیں کرتی؟ لے شعر ہو گیا، تیری نذر کیا۔

میں بھی معاشرے کے عین مطابق ہوں
یعنی منافقوں کی دنیا میں ایک منافق ہوں
وہ کہیں تیرے اندر کی دنیا میں کسی کا ایک جملہ سرگوشی کر رہا ہے۔ تو لے سنیں :۔

”فاقہ کشوں کی بستی میں تمھیں جو آدمی فربہ دکھائی دے اس کے سلام کا جواب نہ دینا کہ اس کا وجود پوری بستی کے حق میں بدترین بد اخلاقی ہے۔ یہاں جو آدمی فربہ ہے اس نے ضرور کسی اکہرے بدن والے کا حق مارا ہے اور جو اکہرے بدن والا ہے اس نے ضرور کسی لاغر بدن والے کا پیٹ کاٹا ہے۔ اور جو لاغر ہے اس نے کسی نا تواں کے آگے سے روٹی اٹھا کر نگل لی ہے اور جو نا تواں ہے اس نے کسی بیمار کے ہاتھ سے لقمہ چھینا ہے اور جو بیمار ہے وہ ضرور کسی کفن چور کی خیرات پر زندہ ہے“ ۔

بس بھائی تو پھر سن لے، اس دور میں وہی منافق نہیں ہے جو زندہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments