کیا ریاست عمران خان کے دباؤ پر پسپا ہو رہی ہے؟


پاکستان اس وقت سیاسی قیاس آرائیوں، افواہ سازی، درپردہ مشاورت اور افہام و تفہیم کے نا ختم ہونے والے سلسلہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ایسے میں جوڑ توڑ میں شامل سیاسی و غیر سیاسی کرداروں کے علاوہ میڈیا کو بھی کم ہی یہ یاد ہے کہ چند ہفتے پہلے ملک ایک تباہ کن سیلاب کا سامنا کرچکا ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں گھر تباہ اور کروڑوں لوگ دربدر ہو گئے تھے۔ حکومت اس تباہ کاری سے ہونے والے نقصان کا اندازہ تیس ارب ڈالر لگا رہی ہے۔ البتہ سیاسی اہداف حاصل کرنے کے جوش میں کسی سطح پر ان بے آسرا لوگوں کی آباد کاری اور ان کے ذرائع معاش کی بحالی کا کام کرنے پر توجہ دیکھنے میں نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ یہ ’غیر ضروری‘ کام قومی و بین الاقوامی این جی اوز کے حوالے کر کے ملکی ادارے اور سیاست دان نئی صورت حال میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور اگلے مرحلے میں کامیابی پر توجہ مرکوز کیے ہیں۔

روزنامہ ڈان نے راولپنڈی، اسلام آباد اور لندن میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ میں عندیہ دیا ہے کہ فوجی حلقوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے سوال پر غور و خوض کے علاوہ اس تحریک انصاف کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعہ کے حل پر بھی توجہ مرکوز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاک فوج کی خواہش ہے کہ نئے آرمی چیف کے کمان سنبھالنے سے پہلے تحریک انصاف کے ساتھ تصادم کی صورت حال ختم کی جائے تاکہ فوج کا نیا سربراہ نسبتاً خوشگوار ماحول میں اپنے کام کا آغاز کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے فوجی حلقے فریقین کو انتخابات کی کسی قابل قبول تاریخ پر متفق ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اگر حکومت تحریک انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے انتخابات کے انعقاد اور عبوری حکومت کے قیام کے کسی منصوبہ کا اعلان کردے تو عمران خان کو احتجاج ملتوی کرنے پر آمادہ کیا جا سکے گا۔ اس طرح ان کی توجہ عسکری قیادت پر حملے کرنے کی بجائے آئندہ انتخابات اور حکومت پر مبذول ہو جائے گی۔

اسی رپورٹ میں یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف شرم الشیخ میں ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان واپس آنے کے بارے میں ٹویٹ کرچکے تھے لیکن پھر اچانک انہوں نے اپنے محدود عملے کے ساتھ لندن جانے کا پروگرام بنایا اور دوحہ سے وہ اسلام آباد کی بجائے لندن چلے گئے جہاں وہ اب تک نواز شریف سے دو ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ قیاس ہے کہ اس ملاقات میں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کو اسٹبلشمنٹ کا کوئی خاص پیغام پہنچایا ہے۔ اس پیغام کا تعلق نئے آرمی چیف کی تقرری کے علاوہ انتخابات کی تاریخ سے بھی ہے۔

یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نواز شریف اگلے سال مقررہ وقت سے پہلے انتخابات کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ انتخابات کو بنیاد بنا کر عمران خان نے جس طرح فوجی قیادت کو نشانے پر لیا ہوا ہے، اس سے تحریک انصاف ہی کا نقصان ہو گا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) دوبارہ پنجاب میں اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش کرسکے گی۔ شہباز شریف کو ہمیشہ سے اسٹبلشمنٹ نواز اور مصلحت پسند لیڈر کی شہرت حاصل رہی ہے، اس لئے یہ بعید از قیاس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لندن میں ہونے والی ملاقاتوں میں نواز شریف کو وقت سے پہلے انتخابات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف کی رضا مندی کے بعد مسلم لیگی قیادت اتحادی حکومت میں شامل دوسری پارٹیوں سے معاملات طے کرے گی۔

اس دوران روزنامہ ڈان کے صحافیوں نے عمران خان کا ایک طویل انٹرویو کیا ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے فوج پر تنقید تو برقرار رکھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ سیاست میں فوج کا کردار مکمل طور سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بس اسے کوئی منتخب حکومت مثبت انداز میں ملک و قوم کی بہبود کے لئے استعمال کرے۔ اسی انٹرویو کے تناظر میں اخبار نے اپنے اداریے میں نوٹ کیا ہے کہ عمران خان نے دو معاملات پر اپنے پہلے موقف کے مقابلے میں مفاہمانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔

ایک تو پہلے وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ ’چوروں لٹیروں‘ کو نیا آرمی چیف مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب ان کا موقف ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون نیا آرمی چیف بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اس انٹرویو میں انہوں نے وزیر آباد سانحہ پر پنجاب پولیس کی ایف آئی آر کے بارے میں بھی پہلے جیسا تند و تیز موقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں ان کے وکلا معلومات فراہم کریں گے۔ اخبار کے خیال میں عمران خان کے اس تبدیل شدہ لب و لہجہ کا تعلق درون خانہ ہونے والے رابطوں میں سامنے آنے والی تجاویز سے ہو سکتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس دوران صدر عارف علوی بھی عسکری قیادت کے ساتھ رابطوں کے ذریعے موجودہ تنازعہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف نے وزیر آباد سے ایک بار پھر لانگ مارچ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس موقع پر ویڈیو خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہیں وزیر آباد سانحہ کی ایف آئی آر، صحافی ارشد شریف کے قتل اور سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے اور مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ ساری قوم عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے‘ ۔ واضح رہے گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس کو دو علیحدہ علیحدہ خطوط میں وزیر آباد سانحہ کے علاوہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کے لئے فل کورٹ کمیشن بنانے کی درخواست دی تھی۔ وزیر اعظم نے ان خطوط میں دونوں سانحات کے حوالے سے پانچ پانچ سوال اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس سے ان کے جواب تلاش کرنے میں معاونت طلب کی تھی۔ چیف جسٹس نے ابھی اس تجویز کا جواب نہیں دیا۔

اس پس منظر میں یوں لگتا ہے کہ قومی قوتیں ایک دوسرے کی چالوں کا جواب دینے کے لئے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ جبکہ ملکی اسٹبلشمنٹ کے دونوں اہم شعبے عسکری قیادت اور سپریم کورٹ، بظاہر دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ کی طرف سے انتخابات کی تاریخ پر مفاہمت کے لئے دباؤ کی خبروں کو درست مان لیا جائے اور منگل کو منعقد ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ ’جنگ بندی‘ کے پہلو پر غور کیا گیا ہے تو یہ فوجی قیادت کے اس علانیہ وعدے کے برعکس طرز عمل ہو گا جس میں ایک طرف فوج کے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا دو ٹوک اعلان کیا گیا ہے اور دوسری طرف عمران خان کے الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دینے کے لئے آئی ایس پی آر کے سربراہ کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے پریس کانفرنس سے خطاب کر کے غیر معمولی اقدام کیا تھا۔

وزیر آباد سانحہ کے بعد عمران خان کی طرف سے ایک فوجی جنرل پر الزام عائد کرنے کے بعد بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے سخت موقف اختیار کیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایسا الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت کے پاس فوج کو مطعون کرنے والے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے متعدد طریقے ہیں لیکن وزیر اعظم نے اس بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کو ترجیح دی ہے۔

سپریم کورٹ اپنی حد تک ابھی تک تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس نے موجودہ سیاسی صورت حال میں کوئی واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کیا۔ حالانکہ ایک تو چیف جسٹس کے پاس سو موٹو کا حتمی اختیار بہر طور موجود ہے جسے استعمال کرنے کا اشارہ عمران خان نے آج کے خطاب میں بھی دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمی کا پانچ رکنی بنچ حکومت کی طرف سے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن پر بھی غور کر رہا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 25 مئی کے لانگ مارچ کے موقع پر عمران خان نے سپریم کورٹ کو دلائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی تھی، اس لئے ان کے خلاف توہین عدالت کے الزام میں کارروائی کی جائے۔ پانچ رکنی بنچ اس درخواست پر نہایت محتاط انداز میں پیش قدمی کر رہا ہے۔ اسے چیف جسٹس کی دفاعی حکمت عملی بھی کہا جاسکتا ہے۔

اسٹبلشمنٹ کے دونوں اہم ادارے اگر عمران خان کے ’جارحانہ سیاسی طرز عمل‘ کے سامنے خود کو ’غیر محفوظ‘ سمجھتے ہوئے شہباز شریف کی حکومت کو کسی ’مفاہمت‘ پر مجبور کر رہے ہیں تو عمران خان اسے اپنی فتح سمجھ کر دباؤ میں اضافہ کریں گے۔ سیاسی مفاہمت کے لئے فوج کا کردار بہر حال اس کے آئینی فرائض کے مطابق نہیں ہو گا اور یہ طریقہ کار فوجی قیادت کے اس دعوے کے بھی برعکس ہو گا کہ فوج اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس نے ’غیر سیاسی‘ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ غیر سیاسی ہو جانے والے فوجی لیڈروں کو علی الاعلان یا درپردہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بات چیت کر کے کسی ’قابل قبول حل‘ کی کوششیں بھی نہیں کرنی چاہئیں۔

چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی مجبوری سمجھنے کے لئے عدالت عظمی کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس کھلے خط کا مطالعہ ضروری ہے جو انہوں نے تحریک انصاف کی طرف سے شاہراہیں بند کرنے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے اور کہا ہے کہ ’رسول اللہﷺ نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی قرار دیا ہے‘ ۔ انہوں نقل و حمل کو بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاست کی اولین اور بنیادی ذمے داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے‘ ۔ وزیر اعظم نے وزیر آباد سانحہ کے حوالے سے جب فل کورٹ کمیشن پر اصرار کیا ہے تو اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بعض ججوں کے بارے میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ ان کے فیصلے ان کی ذاتی خواہشات اور پسند و ناپسند کے محتاج ہوچکے ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی مسائل اور سڑکوں پر پھیلائے جانے والے اشتعال کی موجودہ صورت حال میں حکومت کو عزم و حوصلہ کے ساتھ قانون کی عمل داری یقینی بنانی چاہیے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ملکی عدلیہ اور دیگر ادارے حکومت کو معاونت فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ موجودہ سیاسی انارکی میں اگر یک جہتی اور قومی اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا جا سکا تو تخریبی قوتیں ہر مرحلے پر اپنی مرضی نافذ کرنے کی کوشش کریں گی۔ ملک کا قانون اور نظام اس من مانی کا بوجھ برداشت نہیں کرپائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments