میں کون ہوں؟ ذاتی خاکہ


تو کون ہے؟ تم کون ہو؟ آپ کون ہیں؟ یہ سب سوال ایک ہیں لیکن پوچھنے والے کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ سوال اکثر میرے کان میں گونجتے رہتے ہیں اور ان کو سن کر میرے ذہن میں بھی سوال اٹھتا ہے میں کون ہوں؟ جب میں اس پر غور کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ لوگ مجھے کلیم کے نام سے پکارتے ہیں اور میں اس نام کا اتنا عادی ہو گیا ہوں کہ اگر سویا بھی ہوں تو مجھے کلیم پکارا جائے تو میں اٹھ بیٹھتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں کوئی کلیم نامی شخص ہوں۔

اگر میں اپنی تعلیمی اسناد کی پڑتال کرتا ہوں تو وہاں نام محمد کلیم نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میرا مکمل نام محمد کلیم ہے اور لازمی بات ہے یہ نام مجھے میرے والدین نے دیا ہو گا اور میں اب اسی نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہوں، بعض من چلے کبھی کبھی کسی اور القاب سے بھی پکارتے ہیں۔ ان کی مرضی ہے کیا کہہ سکتا ہوں، لیکن سچی بات یہ ہے مجھ میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ میں اخبار میں اشتہار دے کر اس کو تبدیل کر لیتا۔ اس لیے ابھی تک محمد کلیم کے نام سے جانا جاتا ہوں۔

مجھے آئینہ دکھاتا ہے کہ میرا جسم کافی فربہ ہے بلکہ موٹاپے کی طرف مائل ہے شاید یہی وجہ ہے لوگ اکثر مجھے موٹا کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ لیکن مجھ سے قسم لے لیں کہ میں نے آج تک خود کو موٹا سمجھتا ہوں اس لیے اپنے آپ سے اکثر پوچھتا ہوں میں سمارٹ ہوں ناں؟ اور جواب ملتا ہے جی بالکل۔

کہتے ہیں ناں :
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

پچھلے بیس سال سے روزانہ ورزش کر رہا ہوں مگر مجال ہے جسم سے ایک رتی وزن کم ہو جائے ہر سال ماشاءاللہ دو تین کلو کا اضافہ ضرور ہو جاتا ہے یہاں میں نے سائنس کو مات دے دی ہے جو کہتی ہے کہ روزانہ ورزش آپ کو تندرست اور پھرتیلا رکھتی ہے جبکہ مجھے اپنے بستر سے اٹھنے کے لیے کئی کئی منٹ درکار ہوتے ہیں اور میں تو مزید سست روی کا شکار ہو گیا ہوں پھرتیلا پن تو دور کی بات ہے۔

رنگ گورا قد پانچ فٹ نو انچ اور بال کالے رنگ کے ساتھ کچھ سفید آن ملے ہیں مگر میں نے ان کو چپ رہنے کا کہا ہے اس لیے لوگوں کو میں قدرے جوان نظر آتا ہوں اور وہ کہتے ہیں بھائی آپ کے بال تو بڑے کالے ہیں۔

میرے جسم کی ڈیل ڈول، بڑوں کی باتوں اور حرکتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بندہ کا تعلق کاروباری یعنی بنیا کے پیشہ سے ہے آبا و اجداد کئی نسلوں سے سونے کے کاروبار سے منسلک ہیں لیکن بندہ ناچیز کیونکہ صلح جو، ملنسار اور ڈرپوک واقع ہوا ہے اس لیے سونے میں کھیلنے سے زیادہ کاغذوں (یہاں کاغذوں سے مراد کرنسی نوٹ نہیں ہیں ) میں کھیلنا پسند کیا اور اس لیے سرکار کی منشیٰ گیری کو اپنا رکھا ہے اور حد تو یہ ہے کہ سونے میں کھیلنے والے میرے رشتے دار بھی مجھے رشک (شک) بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں (حالانکہ اس میں رشک کی کوئی بات نہیں ) ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے ہاں سرکار ابھی تک شاہی فرمان جاری کرتی ہے اور رعایا حکم بجا لاتی ہے۔

لوگوں کی رائے ہے کہ میں بولتا بہت زیادہ ہوں اور جو بات دماغ میں ہوتی ہے وہی زبان پر ہوتی ہے (یعنی کہ منہ پھٹ ہوں ) ۔ کچھ لوگ اس بات کو سچے اور کھرے بلکہ کھردرے ہونا بیان کرتے ہیں اور دوسرے کہتے ہیں کہ جناب کب دنیاداری سیکھیں گے۔ اب معلوم نہیں دنیاداری کس چڑیا کا نام ہے اگر اس سے مراد بغل میں چھری منہ میں رام رام ہونا ہے تو میں اس سے تائب ہونا بہتر سمجھتے ہیں۔

تعلیم کوئی خاص نہیں صرف ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور بھی سیاسیات میں۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ میرے پورے خاندان کا سیاست سے دور دور تک تعلق نہیں ہے ایک دور کے رشتہ دار نے ایک مرتبہ کونسلر کا انتخاب لڑا تھا اور ایک ووٹ لینے کا شرف حاصل کیا تھا اور نتائج کے بعد میاں بیوی میں اس بات پر لڑائی ہوئی تھی کہ ووٹ کس کا ہے کیونکہ دونوں کا دعوٰی تھا کہ یہ ووٹ انہوں نے ڈالا ہے اور مزے کی بات یہ ہے ابھی تک یہ بات طے نہیں ہو سکی اس لیے دونوں میں لڑائی جاری ہے۔

میرا بہترین مشغلہ باتیں بنانا اور لوگوں کو باتیں سنانا ہے (یہاں سنانے سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں ) ۔ اگر میرے قریب لوگ نہ ہوں جن کے ساتھ میں باتیں بنا سکوں تو میں کاغذ پر باتیں بناتا رہتا ہوں۔ اور اگر کاغذ پر باتیں بنانے کا موقع نہ ملے تو اپنے بستر پر موٹے موٹے ناول پڑھ لیتا ہوں۔ بستر پر لیٹے لیٹے پوری دنیا کی سیر کرتا ہوں اور جب سیر کر کے تھک جاتا ہوں تو بستر پر لیٹ کر تھکن دور کرتا رہتا ہوں اور لوگ اس وجہ سے مجھے سست اور کاہل سمجھتے ہیں حالانکہ میں کتنا چلتا ہوں انہیں کیا معلوم۔

شادی شدہ ہوں اور پچھلے اٹھارہ سال سے اپنی آزادی اپنی مرضی سے زوجہ کے حوالے کر رکھی ہے۔ جس کا وہ بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور خوش رہتی ہیں (ویسے یہ میرا قیاس ہے سچ جاننے کے لیے آپ کو ان سے رابطہ کرنا پڑے گا، اگر ہمت ہے تو کر لیں ورنہ میری بات پر یقین کر لیں ) ۔

یہ جو میں نے اپنا خاکہ لکھا ہے سب جھوٹ اور بکواس ہے اس لیے اس کو پڑھ کر قہقہے ضرور لگائیں مگر یقین مت کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments