بوسنیا کی چشم دید کہانی۔ 19


محلوں کی دنیا میں اتنا وقت گزارنے کے بعد اب طبیعت کسی اور محل کو دیکھنے پر مائل نہ تھی۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ایک ایسے گھر کا رخ کیا جائے جس کا باسی میدان علم کا ایک ایسا شاہ ہے جس کی سلطنت کبھی زوال پذیر ہونے والی نہیں۔ یہ گھر نفسیات کے بابا آدم سگمنڈ فرائیڈ کا تھا۔

مسلم ہائی سکول نمبر 1 راول پنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب اس درس گاہ کے طلباء کی اکثریت کی طرح میں نے بھی مزید تعلیم کے لیے اس کے قریب واقع گورنمنٹ کالج اصغر مال کا انتخاب کیا تو اس وقت تک علم نفسیات کے بارے میں میری معلومات اتنی ہی تھیں جتنی پولیس والوں کی انسانی حقوق کے تصور سے شناسائی۔ چنانچہ کالج کا داخلہ فارم پر کرتے ہوئے میں نے اختیاری مضامین کے خانے میں تاریخ اور اسلامیات لکھا اور فارم جمع کروانے اور انٹرویو کی غرض سے داخلہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔

داخلہ کمیٹی دو ارکان پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ایک رکن نے جب میرے میٹرک کے نمبر دیکھے تو بولے، اتنے اچھے نمبروں کے ساتھ آپ یہ کس طرح کے مضامین کا انتخاب کر رہے ہیں۔ سوال میری سمجھ میں نہ آیا کیوں کہ میرے خیال کے مطابق نمبروں کے معاملے کو الگ رکھتے ہوئے بھی میں نے کسی قابل اعتراض مضمون کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ میں ابھی جواب دینے ہی کو تھا کہ وہ صاحب بولے۔ میری رائے میں تو آپ کو نفسیات اور معاشیات کے مضامین منتخب کرنے چاہئیں جو آپ کو بعد میں عملی زندگی میں بھی کام آئیں۔

اپنی تعلیم کا بنیادی مقصد بھی چونکہ عملی زندگی میں کسی نوکری کی شکل میں کام یابی ہی تھا لہٰذا میں نے ان کی رائے سے بلا جھجک اتفاق کر لیا اور تاریخ اور اسلامیات کے مضامین کو قلم زد کر کے ان کی جگہ نفسیات اور معاشیات کو دے دی۔ (ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان مضامین نے میری عمومی معلومات میں چاہے جس قدر اضافہ کیا ”عملی زندگی“ میں میرے مدد گار تاریخ اور اسلامیات ہی رہے اور یہ ان مضامین کی مہربانی تھی کہ انھوں نے میری گستاخی کو قابل معافی سمجھا۔ (مقابلے کے امتحان میں میرا اچھا سکور انہی مضامین میں تھا) ۔

وہ شخصیت کہ جنہوں نے مجھے کالج کی سطح پر نفسیات اور معاشیات پڑھنے کی ترغیب دی تھی، کالج میں نفسیات کے پروفیسر جناب طارق منیر تھے۔ سانولی رنگت، بھرا بھرا جسم، نہایت سلیقے سے تراشے ہوئے بال اور گھنی بھنویں، مناسب قد کاٹھ اور اس پر لباس کا وضع دارانہ ذوق۔ یہ تھے پروفیسر طارق منیر جو نہ صرف نفسیات کے استاد تھے بلکہ فرائیڈ کے مداح بھی۔ وہ اپنے مضمون پر حاوی بھی تھے اور اپنے علم کو طلباء تک پہنچانے کا سلیقہ بھی خوب جانتے تھے۔

چنانچہ نفسیات سے کچھ ایسا شغف پیدا ہوا کہ میں نے بی اے میں بھی اس کا مطالعہ جاری رکھا۔ اب مجھے چھوڑ کر باقی تمام ہم جماعت جنہوں نے اس مضمون کا انتخاب کیا تھا وہ سائنس کے طالب علم تھے۔ انھیں یہ مضمون انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا۔ صرف میری خاطر طارق منیر صاحب وقفے وقفے سے اپنے لیکچر کا اردو ترجمہ کرتے تھے اور اس دوران دوسرے ہم جماعت اس اکلوتے اردو میڈیم کو گھورتے رہتے تھے۔ میں انھیں نظر انداز کرتے ہوئے طارق صاحب کی طرف متوجہ رہتا۔

اپنی اس دوہری محنت پر وہ کبھی بھی ناگواری کا اظہار نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایک ایسا طالب علم دل برداشتہ نہ ہو جائے جسے مطالعہ نفسیات کی طرف انھوں نے ازخود راغب کیا تھا۔ قیوم کو بہر حال یقین تھا کہ اس تجربے کے بعد طارق صاحب آئندہ کسی طالب علم کے مستقبل کی فکر میں اسے نفسیات پڑھنے کا مشورہ کافی سوچ سمجھ کر دیں گے۔

نفسیات اور فرائیڈ کے ساتھ لگاؤ آج ہمیں برگاسی 19 کی طرف لیے جا رہا تھا۔ جو 1891 ء تا 1938 ء ویانا میں فرائیڈ کا مسکن رہا تھا۔ یہ گھر ایک فلیٹ کی شکل میں ایک وسیع و عریض عمارت کی دوسری منزل پر واقع تھا جو اب ایک میوزیم میں بدل دیا گیا تھا۔ یہاں وہ تمام اشیاء بڑے سلیقے سے سجائی گئی تھیں جو فرائیڈ کے زیر استعمال رہی تھیں۔ اس کے علاوہ فرائیڈ اور اس کے اہل خانہ کی مختلف ادوار کی تصاویر، اس کی ذاتی تحریریں اور کتب بھی یہاں محفوظ تھیں۔

ایک کمرے میں مہمانوں کے لیے تاثرات درج کرنے کے لیے کتاب رکھی ہوئی تھی۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تو ایک لڑکی اپنے تاثرات قلم بند کرنے کے بعد نشست چھوڑ رہی تھی۔ میں نے اپنے تاثرات ثبت کرنے کو قلم سنبھالا ہی تھا کہ میری نظر میری پیش رو کی تحریر پر پڑی۔ ایلیا نامی اس امریکی لڑکی نے صرف ایک جملہ قلم بند کیا تھا۔

Freud, you are far greater than controversial.
مجھے ایسا لگا کہ اس جملے میں اضافہ ناممکن ہے، لہٰذا میں نے قلم واپس قلم دان میں سجا دیا۔

گھر سے باہر نکلتے ہوئے میں نے کاؤنٹر سے ایک کارڈ خریدا جس پر فرائیڈ کے مطالعہ خانہ کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور پروفیسر طارق منیر کے نام ان الفاظ کے ساتھ ڈاک کے سپرد کر دیا۔ ”میں آج ویانا میں اس گھر میں آیا کہ جس کے مکین سے شناسائی آپ کی وساطت سے ہوئی“

سگمنڈ فرائیڈ کے گھر سے باہر نکلا تو شام ڈھلنے کو تھی۔ آج ویانا میں ہماری آخری رات تھی۔ اگلے دن کے معمول میں صبح چھوٹی موٹی خریداری شامل تھی۔ سہ پہر کو بذریعہ بس زغرب روانہ ہونا تھا۔ بس کے ذریعے سفر کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تھا کہ قیام ویانا کے دوران اخراجات اندازے سے کہیں زیادہ رہے تھے اور ریل کے بجائے بذریعہ بس سفر کر کے 20 ڈالر فی کس بہ آسانی بچائے جا سکتے تھے۔

آخری صبح ہم دیر سے اٹھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد سامان اکٹھا کیا اور پھر تین دنوں کا کرایہ ادا کرنے کے بعد کمرہ چھوڑ دیا۔ ویانا سے روانگی چوں کہ سہ پہر کو تھی لہٰذا ابھی سے سامان کے ساتھ نکلنا مناسب نہ تھا۔ دوپہر تک کے لیے سامان استقبالیہ کاؤنٹر پر جمع کروا دیا اور پھر ویانا کے اس کوچہ کا رخ کیا جو مرکز کہلاتا ہے اور جہاں ہر شام بوڑھا بینڈ ماسٹر اپنے طائفے کے ساتھ اپنے فن کا جادو جگاتے پایا جاتا ہے۔ ہر شام کو یہ کوچہ ہمارا مسکن ہوتا تھا جہاں Graben کی یادگار کے قریب نہایت سلیقے سے آراستہ بہت سے کیفے باروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے کافی پیتے ہوئے سستاتے بھی تھے اور اس کے ماحول کی رنگینی کو حزیں قادری کے الفاظ میں اس حسرت کے ساتھ سمیٹتے تھے۔

تینوں تکدی نہ رجھاں
ہوون دو لکھ نیناں، اک کھولاں اک کجاں

آج دھوپ چمک رہی تھی۔ ہم نے کچھ تحائف جن میں زیادہ تعداد آرائشی اشیاء کی تھی خریدے، پھر مرکز کے آخری دورے کے دوران کھانا کھا کر واپس ہاسٹل کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر سامان اٹھایا اور بس اسٹیشن کی سمت روانہ ہوئے۔ بس اسٹیشن ویانا کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے پہلو ہی میں واقع تھا۔ سٹینڈ پر سرائیوو کی بس مسافروں کی منتظر تھی۔ ہم اس کی روانگی کے وقت سے کوئی پون گھنٹہ قبل ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ بس جب روانہ ہوئی تو ہم چار مسافروں کے علاوہ مکمل طور پر خالی تھی۔

ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں کا تعلق سرائیوو سے تھا اور دونوں مسلمان تھے۔ کنڈیکٹر کا نام عبد اللہ تھا اور ہم سے تعارف ہونے پر اس نے ہمارے مسلمان اور پاکستانی ہونے کی خبر فوری طور پر ڈرائیور تک پہنچائی۔ یہ اطلاع ملتے ہی ڈرائیور نے عربی گیتوں کی ایک کیسٹ ریکارڈ میں چڑھا دی اور کنڈکٹر داد طلب تاثرات کے ساتھ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

بوسنیا کے بہت سے مسلمانوں کی طرح ان بے چاروں کا بھی یہی خیال تھا کہ باہر کی دنیا کا ہر مسلمان عربی جانتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اکثریت کے بڑے شہروں خاص طور پر سرائیوو کے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد عربی کی مناسب شدبد ضرور رکھتی تھی۔ لیکن بس ڈرائیور اور کنڈکٹر اس معاملے میں چوں کہ ہم جیسے ہی تھے، لہٰذا ہم نے انھیں ”من عربی نمی دانم“ کا اقرار کر کے اپنی مسلمانی پر شبہ کرنے کا موقع نہ دیا۔ ریل اور بس کا راستہ دریا کے دو کناروں کے مانند تقریباً ساتھ ساتھ ہی چلتا تھا۔

لہٰذا دل کش مناظر سے قندمکرر کے طور پرلطف اٹھایا۔ بس راستے میں سلوینیا کی سرحد پر رکی جہاں پاسپورٹ چیک کروانے کے بعد ہم نے ڈیوٹی فری شاپ سے کچھ خریداری کی۔ یہاں سے چلنے کے بعد بس زغرب ہی میں رکی جہاں یہ رات 9 بجے ائرپورٹ کے قریب واقع اپنے سٹینڈ پر پہنچی۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے ہمیں بڑے پرتپاک انداز سے الوداع کہا۔ قریب ہی منجی بسترے کے انتظام سے آراستہ گھروں والی ہماری پسندیدہ بستی ولیکہ گوریسہ واقع تھی۔ وہ گھر جہاں ہم نے ویانا روانگی سے قبل قیام کیا تھا اب اس میں ہمارے لیے گنجائش نہیں تھی چنانچہ اماں جی کی نشان دہی پر سامنے واقع ایک گھر میں رہائش مل گئی۔

اگلی صبح یو این کی ماٹھی، سی 130، پرواز کے ذریعے جسے اقبال ”بڈابیر کی بس“ کہا کرتا تھا، ہم سرائیوو پہنچے۔ پھر بقیہ سفر بذریعہ سڑک طے کر کے شام تک ہم سٹولک میں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments