خواجہ فرخ سعید۔ نابغہ روزگار شخصیت


نصف صدی کا قصہ دوچار برس کی بات نہیں نصف صدی قبل سے کچھ زائد خواجہ فرخ سعید اور میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں زیر تعلیم تھے جوانی دیوانی تھی۔ کالج میں میری قیادت میں گروپ چھایا ہوا تھا۔ سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ہوں یا سیر سپاٹا، جنگ ستمبر 1965 ہو یا لنڈی کوتل کی ”مشہور زمانہ“ شاپنگ۔ ہمارا گروپ پیش پیش ہوتا تھا۔ ہم خیبر میل کے ذریعے پشاور اور بعد ازاں پشاور سے لنڈی کوتل تک انگریزوں کی بنائی ہوئی خصوصی ٹرین پر درجن بھر زائد سرنگیں عبور کر کے اپنا سفر مکمل کرتے رہے لنڈی کوتل کی مشہور لالٹین کی خریداری کرنا نہیں بھولا کرتے اس دور کی لالٹین آج بھی ہمارے گھروں میں محفوظ ہے۔

کم و بیش 50 سال بعد لنڈی کوتل گیا تو نقشہ ہی تبدیل ہو گیا وہ بازار ہی اجڑ چکا ہے البتہ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہمراہ طورخم پروٹوکول کے تحت دیکھنے کا موقع ملا طورخم کا وہی بارڈر ہے لیکن افغانستان سے ”پرچی“ پر پاکستان آنے کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ پاسپورٹ پر ویزے کے ذریعے ہی پاکستان میں داخلہ ممکن ہے۔ 3600 فٹ کی بلندی پر پاکستان کی تاریخی ”مچنی پوسٹ“ ہے۔ جہاں کھڑے ہو کر دائیں بائیں بلند و بالا پہاڑوں پر لہراتا ہوا پاکستانی پرچم دیکھ کر نہ صرف سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے بلکہ سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔

انگریز کی پاکستان اور افغانستان کے درمیان 130 سال کھینچی گئی لکیر ”ڈیورنڈ لائن“ نے دونوں ملکوں کے درمیان مستقل سرحد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پوری دنیا اسے بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہے لیکن ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود افغانستان بھارت کے ایما پر کبھی کبھی ”ڈیورنڈ لائن“ کی رٹ لگاتا تھا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت مصلحت کا شکار ہو گئی ہے جس طرح واہگہ بارڈر پر لہراتا ہوا پاکستانی پرچم میرے اندر کی ”پاکستانیت“ کو بیدار کر دیتا ہے اسی طرح جب میں امریکہ اور بھارت کے ہاتھوں یرغمال بنائے افغانستان کے بارڈر پر پاکستانی پرچم لہراتا دیکھتا ہوں تو اپنے جذبات کا اظہار الفاظ میں کر سکتا ہوں اور نہ ہی انہیں ضبط تحریر لا سکتا ہوں۔ یہ وہ سرحد ہے جس پر ”پاکستان گیٹ“ تعمیر کرنے کے لئے پاک فوج کے ایک میجر نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا میجر کی شہادت پر پاکستان کی مسلح افواج نے افغانستان کی سرزمین سے گولہ باری کرنے کی حماقت کرنے والوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ایک بہادر فوج کو کرنا چاہیے۔

خواجہ فرخ سعید سے نصف صدی سے زائد قبل دوستی کا آغاز گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال سے ہوا اگرچہ خواجہ فرخ سعید کے والدین قیام پاکستان کے وقت امرتسر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو راولپنڈی آ کر سیٹلائٹ ٹاؤن میں ڈیرہ لگا لیا ربع صدی کے بعد لاہور کا رخ کیا تو پھر یہ خاندان لاہوریوں میں رچ بس گیا لاہور ان کی شناخت کا نشان بن گیا لاہور اور نہ ہی راولپنڈی اسلام آباد میں کسی کا ان کے ساتھ پرانا تھا۔ زمانہ طالب علمی اور بعد ازاں صحافت میں ہم دونوں کا طویل ساتھ رہا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی بڑھتے گئے دوست بنانے کوئی ان سے فن سیکھے ان کا وسیع حلقہ احباب تھا۔ وہ مجھ سے ایک کلاس پیچھے تھے۔ اسی کالج میں ہم دونوں کے درمیان دوستی کا آغاز ہوا جو نصف صدی سے زائد رہے میں 1968 میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوا خواجہ فرخ سعید، مظہر ملک طارق شاہ، امتیاز اور ملک ناظم الدین ناظم میری قوت کا باعث تھے۔

اسی سٹوڈنٹس یونین نے ایوب خان کے خلاف تحریک کو لیڈ کیا گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی ایوب خان کی حکومت خلاف تحریک کا مرکز تھا۔ اگلے سال خواجہ فرخ سعید اسی کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے چونکہ خواجہ فرخ سعید کا لڑکپن راولپنڈی میں گزرا وہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں مقیم تھے۔ اس لحاظ سے ان کے دوستوں کا بڑا حلقہ شہر اقتدار میں ہے جن میں سعود ساحر مرحوم اور خالد عظیم چوہدری پیشہ صحافت کے دوران دوست بنے انہوں نے اپنی زندگی کا آخری سانس لاہور میں ہی لیا پیشہ صحافت جوائن کرنے کے بعد ان سے تعلق بڑھ گیا ہم دونوں کے درمیان دوستی کا یہ عالم تھا ہم دونوں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور سے وابستہ تھے۔ اس یونین کے پلیٹ فارم پر ہم ایک دوسرے کی قوت کا باعث تھے۔ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر بھی رہے میں اور وہ کئی عشرے تک روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ رہے وہ نوائے وقت لاہور میں چیف رپورٹر تھے جب کہ میں نوائے وقت اسلام آباد کا چیف رپورٹر تھا۔ میری نوائے وقت سے وابستگی 41 سال تھی۔ وہ بھی کم و بیش تین عشروں تک روزنامہ نوائے وقت کی اپنے خون سے آبیاری کرتے رہے اس دوران انہیں کئی بیماریاں لاحق ہوئیں لیکن انہوں نے اپنی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ساری عمر بیماریوں سے لڑتے گزر گئی یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔

ان کے ایک بھائی بھی کینسر مرض میں مبتلا تھے اور جوانی میں ہی وفات پا گئے خواجہ فرخ سعید ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھتے دیکھتے ہی مرجھا گیا خواجہ فرخ سعید کا شمار ملک کے مستند صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ ملکی سیاست پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی جاندار تحریروں کا ملکی سطح پر شہرہ ہوتا تھا۔ نواز شریف اور عمران خان سمیت ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت سے ان کے ذاتی سطح پر روابط تھے۔ لاہور کی صحافتی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔

لاہور پریس کلب کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ ان کا وسیع حلقہ احباب تھا۔ سعود ساحر مرحوم اور چوہدری خالد عظیم اور ہم ”کامن فرینڈ“ تھے چونکہ خواجہ فرخ سعید اور میری سیاسی سوچ ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ دونوں مسلم لیگ نون کی بیٹ کور کرتے تھے۔ لہذا ہمارے درمیاں اکثر و بیشتر فون پر رابطہ رہتا تھا۔ خواجہ فرخ سعید زندہ دل صحافی تھے۔ زندگی کے مشکل لمحات بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ نہ چھین سکے لیکن قہقہوں کی گونج ہزاروں من مٹ تلے دب کر رہ گئی ہے۔

سرمد اور سعد اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سوگوار ہیں۔ ہی وہ پورے ملک کی صحافتی برادری بالخصوص پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے ارکان کو سوگوار بنا گئے ہیں۔ علالت کے دوران ان سے ٹیلی فون پر رابطہ رہتا تھا۔ میں نے ان کو بڑے حوصلے میں پایا ان کو کینسر کا عارضہ لا حق تھا۔ وہ پچھلے کئی سال سے کینسر کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ کینسر کی سرجری کرانے سے قبل ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ”زندگی موت اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے۔ 72 سال زندگی ہو گئی ہے۔ اگر زندگی نہ رہی تو کوئی غم نہ ہو گا“ ان کی سرجری کامیاب رہی تھی۔ وہ تیزی سے ریکور کر رہے تھے لیکن انفیکشن نے جگر کے زخم ہرے کر دیے بالآخر وہ اللہ تعالٰی کے حضور پیش ہو گئے خواجہ فرخ سعید کی وفات جہاں پی ایف یو جے دستور کا نقصان ہے۔ وہاں میرا ذاتی نقصان ہے۔ خواجہ فرخ سعید پی ایف یو دستور کا اثاثہ تھے۔ یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ لاہور میں پی یو جے دستور کے روح رواں تھے۔ رحمان بھٹہ کو ان کی سرپرستی حاصل تھی۔

انہوں نے نوائے وقت کے کارکنوں کے حقوق دلانے کے لئے جد و جہد کی قیادت کی دو سال سعود ساحر مرحوم کے جنازے می شرکت کے لئے اسلام آباد آئے تو میرے اصرار کے باوجود غریب خانہ پر نہ آ سکے کیونکہ وہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے ہمراہ فوری طور پر لاہور واپس جانا چاہتے تھے پھر ان سے لاہور میں 16 جنوری 2021 کی شب آخری ملاقات ہوئی جب پی یو جے دستور نے میرے اعزاز میں عشائیہ دیا جگر کے آپریشن کے بعد ان سے گاہے بگاہے فون ]پر بات ہوتی رہتی پھر وہ سب کو روتا چھوڑ کر اس جہاں سے چلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا حضرت میاں محمد بخش نے یاروں کی جدائی پر ہی کہا تھا۔

؂لے او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے۔ ہم اپنے یار کی جدائی پر آنسو ہی بہا سکتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments