شعری مجموعہ ”مجھے اب بولنا ہو گا“


Dr Shahid M shahid

شاعری ایک فطری صلاحیت اور لگاؤ کا نام ہے جس میں شاعر اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے۔ اسے فطرت کی طرف سے شعور و آگاہی ملتی ہے۔

قدرت اسے کچھ سوچنے، کہنے، اکسانے اور لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ شاعری انسانی تہذیب کی خوبصورت روایت ہے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ ہر زمانے میں تخلیق کار پیدا ہوتا ہے۔ وہ کیا سوچتا ہے؟ بس اس کی سوچ اس کی پہچان کا حصہ بنتی ہے۔ جتنا کوئی قدرت کے قریب ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ تصورات کو خوبصورت انداز سے قلمبند کرتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ شہر میں رہتے ہیں یا گاؤں میں۔ خدا ہر جگہ موجود ہے۔

کائنات اس کے عجائب سے بھری پڑی ہے۔ بات صرف محسوسات، احساسات، تخیل، الفاظ کا برتاؤ اور فطری آگاہی پر مکمل ہوتی ہے۔ وجدانی عمل کتنا موثر اور کتنا پر تاثیر ہے۔ وہ کلام کی ندرت اور ہمہ گیریت پر مشتمل ہوتا ہے۔ تخیل کی بلند پروازی اسے سحرانگیز بنا کر قارئین کو متاثر کرتا ہے۔

آج میرے ہاتھوں میں جو کتاب ہے اس کا عنوان ”

اب مجھے بولنا ہو گا ”ہے۔ اس کتاب کے شاعر ہر دل عزیز دوست جناب مقبول شہزاد صاحب ہیں۔ ان کی یہ چوتھی کتاب ہے۔ یعنی فاضل دوست کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

ان کی شائع شدہ کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ مجھے خاموش رہنے دو
2۔ آج دی شام
3۔ مقدس گیت
4۔ مجھے اب بولنا ہو گا

میرے لئے بڑے استحقاق کی بات ہے۔ میں فاضل دوست کے شعری مجموعہ ”مجھے اب بولنا ہو گا“ پر تبصرہ کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ یقیناً تاثرات شاعر کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں اور وہ اس کے فن کا اجر ہوتے ہیں۔

بہت کم لوگ ہیں جو تحریری قرض ادا کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ کتاب کی ورق گردانی

ان کے لیے ایک بوجھ ہوتی ہے۔ بہرحال میں اس معاملہ پر حساس ہوں۔ لکھنا، پڑھنا، پرکھنا، سوچنا میری مجبوری ہے جس کا جواب میری تحریر ہوتی ہے۔

شاعر احساس اور حساسیت کی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ کائنات میں جن چیزوں کو دیکھتا ہے۔ انہیں ایک خاص ترتیب و تدوین اور عروج کی ماہیت میں باندھ دیتا ہے۔

بات کائنات کی ہو، معاشرے کی ہو، ثقافت کی ہو، ظلم و ستم کی ہو، سماجی رویوں کی ہو، منشیات کی ہو، ہجر و وصال کی ہو، عشق و محبت کی ہو، عقل و روح کی ہو، حکمت و معرفت کی ہو، صبح و شام کی ہو، حسرت و یاس کی ہو، شب کے تاروں کی ہو، آفتاب و ماہتاب کی ہو، پھول کلیوں کی ہو، حسن و ادا کی ہو، محبت و نفرت کی ہو، آنکھوں کی ہو، چاند اور سمندر کی ہو، طلب اقتدار کی ہو سب کا جنم قلم سے ہوتا ہے۔ یہ اظہار کا صدیوں پرانا رشتہ ہے جو تخلیق کار اور قلم کے درمیان قائم ہے۔

زندگی خوبصورت گلشن کی طرح ہے۔ اس میں رنگ برنگ کے پھول اور کلیاں کھلتی ہیں۔ ان کی خوشبو، کشش، ترو تازگی، ادائیں اور رقص روح و قلب پر اثر انداز ہو کر تخلیق کو جنم دیتا ہے۔

فاضل دوست مقبول شہزاد کی یہ کتاب میرے ساتھ محو گفتگو ہے۔ اس کتاب کی نظمیں، غزلیں، قطعات اپنے اندر ایک دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ ان کے اندر ایک خاص کشش، سماجی شعور، فنی حسن، فکری گہرائی، حسن و جمال، سیاسی رنگ بازی، جزا و دعا، افلاس کا قرب، مٹی کی وفا، وطن سے محبت اور بہار و خزاں جیسے موضوعات اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلووں کے ساتھ اپنی پلکیں پھیلائے اپنا تعارف کروا رہے ہیں۔ کتاب کا مکھ گلشن سے عبارت ہے جسے تھامتے ہی اداسی کے بادل اڑ جاتے ہیں۔

قاری جیسے جیسے کتاب کی ورق گردانی کرتا جاتا ہے۔ اس کی دلچسپی بھی اسی شدت سے بڑھتی جاتی ہے۔ یہ شرط صرف پختہ شعور رکھنے والوں پر لاگو ہے۔ باقی اس شرط سے مستثنی ہیں۔ جو لوگ مطالعہ کی شغف رکھتے ہیں وہ ایک نشست میں ہی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

کتاب اپنی گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ادبی حلقوں میں زبان زد ہے۔ کتاب میں نظمیں، غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔

فاضل دوست وطن سے محبت اور منشیات کے خلاف صدائے احتجاج ہیں۔
ان کی نظم منشیات زہر قاتل ملاحظہ کیجئے۔
حالت بگاڑ دی ہے میری منشیات نے
دنیا اجاڑ دی ہے میری منشیات نے
پہلے قمیض بیچ کر ایک روز گیا
چادر اتار دی ہے میری منشیات نے
سوچا تھا ایک روز کہ بیوی کو بیچ دو
غیرت ہی مار دی ہے میری منشیات نے
وقتی شباب اور وہ جوانی کی حسرتیں
رو کر گزار دی ہے میری منشیات نے
نفرت سے دیکھتی ہے اب احباب کی نظر
عزت تو ہار دی ہے میری منشیات نے
شہزاد بیٹھ انتظار موت کا کروں
لحد اسار دی ہے میری منشیات نے

مقبول شہزاد ایسے لب و لہجہ کے شاعر ہیں جن کا کلام اچھوتے موضوعات پر قلم فرسائی کرتا ہے۔ شیریں ترنم کے ساتھ گنگنانے پر مجبور کرتا ہے۔ لفظیات کی دنیا آباد کرتا ہے۔ مثبت سوچ کی غزا مہیا کرتا ہے۔ محبت کرنا سکھاتا ہے۔ شعور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔

اجڑا کسی کا گھر کہ کوئی ڈوب رہا ہے
تجھ کو نہیں خبر کہ کوئی ڈوب رہا ہے
رونا ہے تاحیات تو اشکوں کے رکھ جبر
کچھ دیر کر صبر کہ کوئی ڈوب رہا ہے

میں فاضل دوست کو شعری مجموعہ ”اب مجھے بولنا ہو گا“ تخلیق کرنے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے زمین پر چھ عشروں کے تجربات و مشاہدات کو ایک تخلیقی کھیت میں بویا ہے۔ امید ہے نوجوان نسل کے لئے ان کا یہ بیج پھلدار ثابت ہو گا۔ بلاشبہ ان کی یہ تخلیقی کاوش ادبی حلقوں میں اپنی پہچان کروا چکی ہے۔ مزید کتب کی تخلیق اور آمد کا منتظر۔ دعاؤں کے بخور کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments