پختونخوا ملی عوامی پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار


10 نومبر کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ سے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے دستخط سے جاری شدہ ایک بیان میں پارٹی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے دو سینئر ممبران عبیداللہ بابت اور رضا محمد رضا کی پارٹی رکنیت ختم کردی گئی۔ یاد رہے کہ عبداللہ بابت عرصہ دراز سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اور رضا محمد رضا مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اسی طرح چند ماہ پہلے پارٹی نے قلعہ سیف اللہ کے سینئر معاون سیکرٹری سید اکبر کو بھی پارٹی سے نکال دیا تھا۔

پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنی وضاحتی بیان میں اس اقدام کے دو وجوہات بیان کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ رہنما مسلسل پارٹی منشور کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور دوسرا یہ کہ یہ لوگ پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان رہنماؤں کو بارہا اپنی تنظیمی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا تھا لیکن وہ اپنے روش پہ قائم رہے۔ جس کی وجہ سے پارٹی کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔

ان رہنماؤں کی رکنیت ختم کرنے کے بعد پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ پارٹی کے دیرینہ سپورٹرز اس فیصلے کو فرد واحد کی انا سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کچھ ورکرز تو یہاں تک کہہ بیٹھے کہ ایک اخباری بیان کسی کارکن کا پارٹی سے پچاس سالہ تعلق کیسے ختم کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ تو پارٹی کے وجود پہ ہی سوالات اٹھانے لگے۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن گل مرجان نے اپنے فیس بک وال پہ لکھا ہے کہ اب وقت ہے کہ پارٹی نوجوان قیادت کو مواقع فراہم کرنے کے لئے اپنی تنظیمی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لے آئے ورنہ کارکنوں کے پاس دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا آپشن بھی موجود ہے۔

اگر بغور دیکھا جائے تو حالات کے اس نہج پر پہنچے میں کئی عوامل کار فرما ہیں۔ سب سے پہلا اور بنیادی پوائنٹ یہ ہے کہ ملک کے باقی سیاسی جماعتوں کی طرح پشتون قوم پرست جماعتیں بھی وراثتی سیاست سے باہر نہیں نکل سکیں۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قیادت کا بحران پیدا ہونے لگا۔ ان خاندانوں کے نوجوان نسل میں قیادت کی وہ صلاحیت نہیں پائی جاتی جو ان کے آباء اجداد میں ہوتی تھی۔ دوسرا یہ کہ اکیسویں صدی کے انفارمیشن ریوولیوشن کے دور میں پلے بڑھے نوجوان کی سیاسی سوچ و فکر بیسویں صدی کے لوگوں سے یکسر مختلف ہے۔ آج کا نو جوان بہت ریشنل ہو چکا ہے۔ موجودہ دور میں مرکزی قیادت کے ہر فیصلے کی اندھی پیروی کی بجائے اس کا نفع و نقصان کی بنیاد پر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس لئے مرکزی قیادت کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنا اور کوئی لائحہ عمل بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے اندرونی اختلافات کی دوسری بنیادی وجہ محمود خان اچکزئی کی سیاست میں پائے جانے والا ابہام ہے۔ اچکزئی صاحب نے حال میں افغانستان کے یوم استقلال کے موقع پر اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں منعقد ہونے والے پروگرام میں شرکت کر کے سوالات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں اس نے خود کو طالبان کا وزیر خارجہ کہتے ہوئے پشتون قوم سے امارت اسلامی افغانستان کی حمایت کی اپیل کی تھی۔

ان بیانات سے نہ صرف محمود خان اچکزئی کی سیاست میں موجود ابہام واضح ہوتی ہے بلکہ پارٹی کارکنوں کے ذہن میں بھی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ ان بیانات کے بعد جو سوال زبان زد عام تھا وہ یہ تھا کہ کیا یہ پارٹی پالیسی ہے یا محمود خان اچکزئی کی ذاتی رائے۔ ان سوالات کا اٹھنا لازمی امر تھا کیونکہ مورثی سیاست میں پارٹی اور پارٹی لیڈر میں فرق کرنا آسان نہیں ہوتا۔

اگر غور کیا جائے تو پاکستان کے حوالے سے بھی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آ رہا۔ کچھ عرصہ پہلے محمود خان اچکزئی نواز شریف کے دست راست بن کر اس کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے غیر مشروط حامی بن گئے تھے۔ لیکن حال ہی میں تحریک عدم اعتماد کے بعد قیادت ملنے کے بعد مسلم لیگ نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے جس طرح دوری اختیار کی اس طرح محمود خان اچکزئی نے اپنے چار سالہ پالیسی ناکامی کی وضاحت دینے کی بجائے چھپ سادہ لینے کو ترجیح دی۔

اس طرح پشتون قوم پرست بشمول پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ورکرز پاکستان کے سیاسی جماعتوں کے افغان جنگ میں کردار کو کھل کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن حالیہ چند سالوں میں محمود خان اچکزئی کے مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں خاص کر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ سیاسی اتحاد کے حوالے سے پارٹی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پارٹی کے لوگوں نے کبھی بھی اس پالیسی کو تہہ دل سے قبول نہیں کیا۔

مختصر یہ کہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی میں اندرونی اختلافات عرصہ دراز سے پائے جاتے تھے جو کہ اب کھل کر سامنے آ نے لگے ہیں۔ پارٹی کو بچانے کے لئے اب کی بار محمود خان اچکزئی کو کچھ بڑے فیصلے لینے ہوں گے ۔ جن میں پارٹی کے اندر مورثی سیاست یا ڈیموکریٹک سنٹرل ازم کا خاتمہ کرنا اور پاکستان میں رہتے ہوئے ایک واضح سیاسی لائحہ عمل کے تحت سیاست کرنا سر فہرست ہے۔ اگر موروثی سیاست کا مکمل خاتمہ اس سٹیج پہ ممکن نہ ہو تو کم از کم نوجوانوں کے ساتھ قیادت کے اشتراک کے لئے کوئی راستہ نکالنا ہو گا۔ اس کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے بھی پارٹی کو ایک ٹھوس اور واضح پالیسی بنانی ہوگی۔ تب جا کر پارٹی کی سیاسی بقاء ممکن ہو سکے گی۔ ورنہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کچھ عرصے بعد پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی گلستان تک محدود ہو جائے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments