ایک پیش گفتہ موت کی روداد


گرد آلود گلیوں کا تذکرہ مجھے اپنے گاؤں لے جاتا ہے۔ یوں تو سڑکیں بچپن سے ہی پکی دیکھی تھیں لیکن گرد ہر طرف ہوتی تھی۔ گرمی میں میرا گاؤں تپتا تھا۔ میرے آبائی گھر کے باہر قبرستان ہے جہاں لوگ اور ان کے ساتھ ان کی کہانیاں سوئی ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ جن کو میں جانتا ہوں، کچھ کو دیکھا تھا، کچھ ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں صرف سنا تھا اور کچھ بالکل اجنبی۔ میں اکثر ان کے بارے میں سوچتا رہا ہوں کہ ان سے وابستہ خیال اور ان کی کہانیاں کیا ہوں گی۔

شاید ان میں کچھ ایسے بھی ہوں جو قتل ہوئے ہوں۔ اس قبرستان سے متصل ایک پیر کا مزار بھی ہے جس کے وہاں ہونے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کہاں سے نمودار ہوا تھا۔ بچپن میں سنا تھا کہ ایک دن کوئی سر ہوا میں اڑتا اس مقام پہ آیا تھا اور، اس جگہ کو اپنی آخری آرام گاہ چن لیا تھا۔ یہ اور ایسی کئی باتیں مجھے سوال کرنے پر اکساتی رہی ہیں اور پھر میری ملاقات مارکیز سے ہوئی۔ مجھے لگا مارکیز میرے گاؤں کا کوئی فرد ہے۔

اس کے وہاں بھی وہی گرد آلود گلیاں، گرمی ایسی کہ گھر تندور کی مانند، لوگوں کے جسم پسینے سے شرابور اور ان کے جسموں پر پوشیدہ زخم، ان کی مسافتوں کی روداد سناتے ہوئے۔ میرے محلے کے پیر کی طرح مارکیز کے پاس بھی جادوئی کردار تھے۔ مارکیز جیسے سندھ کے کسی گاؤں کا قدیم باسی ہو، موہن جو دڑو کا، اور اس کے ارد گرد ویسے ہی خانہ بدوش ہوں جیسے میں نے اپنے ننہیال سکھر میں کرتب دکھاتے دیکھے تھے اور میں ان کے شعبدوں میں گم ہو گیا تھا۔

مارکیز کے کردار مجھے زندہ لگتے ہیں جو ناول کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتے، زندہ جاوید رہتے ہیں۔ مجھے مارکیز کا ذہن اس کے کرداروں کی آرام گاہ محسوس ہوتا ہے۔ جہاں سے وہ اس کے ناولوں میں آ کر بسیرا کرتے ہیں۔ ہمیں کہانیاں سناتے ہیں اور ناول کے اختتام پر اپنے ماخذ کو لوٹ جاتے ہیں۔ یوں وہ ایک کہانی سے دوسری کہانی کی مسافت میں رہتے ہیں اور مارکیز کے قارئین ان کرداروں سے مانوس ہوتے ہیں۔ مارکیز کی آپ بیتی
Living to tell the tale
ہو یا اس کا ناول
One hundred years of solitude،
اس کا ناویلا
Chronicle of a death foretold
ہو یا رومانوی ناول
Love in the time of cholera،
اس کے کردار ایک دوسرے سے جڑے اور ایک دوسرے کا تسلسل محسوس ہوتے ہیں جن کا مارکیز کی حقیقی زندگی سے گہرا تعلق آشکار ہوتا ہے۔

مارکیز سے پہلے مجھے ہرمن ہیس، ہیمینگوے اور البرٹ کامیو نے متاثر کیا تھا لیکن جو اپنائیت مارکیز کے ساتھ محسوس ہوئی۔ باقی سب کہیں پیچھے رہ گئے۔ مارکیز کا فکشن مجھے اپنا لگتا ہے۔ شاید اس لیے کہ لاطینی امریکا اور اس کے کردار اور ان کی کہانیاں ہمارے مسائل سے مماثلت رکھتی ہیں اور ہم اپنے سوالوں کے جواب ان کے وہاں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ہمیں ان کے ساتھ ایک گہرے تعلق اور ربط کا احساس ہوتا ہے۔

اگر غور کریں تو مارکیز کا ناول
Chronicle of a death foretold
بھی ایسا ہی ہے۔ ہماری معاشرتی حقیقتوں سے ملتا جلتا۔ اس ناول کا پس منظر مارکیز کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بیان کیے گئے واقعات حقائق پر مبنی ہے جس میں مارکیز نے اپنے تخیل و اسلوب کے رنگ بھرے ہیں۔ یہ ناول پدر شاہی نظام، اس نظام میں غیرت کے تصور، طبقاتی فرق، مذہبیت، تشدد میں پنہاں رومانس، معاشرے میں مروج رسومات اور ان سے منسلک ایتھوز کے گرد گھومتا ہے۔

اگر دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں بھی 1981 میں چھپے اس ناول کے بیانیہ جیسے معاشرتی مسائل نظر آتے ہیں۔ آج بھی ہم پر مڈیول سوچ کا غلبہ ہے۔ ہم آج بھی پدرشاہی، غیرت کے نام پر قتلوں، مذہبی جنونیت، مروج رسومات اور پسماندہ خیالات کے اسیر ہیں۔ آج بھی ہمارے یہاں ”پیش گفتہ اموات کو ہونے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments