سرحدوں پر ڈرون دراندازی: کیا انڈیا کو نئے سکیورٹی چیلنج کا سامنا ہے؟


ّڈرون، انڈیا، پاکستان، سرحد
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح تشدد کی سطح میں نمایاں کمی ہوئی ہے (جس کا اعتراف امریکہ نے بھی کیا) اور لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور انڈیا کی افواج کے درمیان سیز فائر کی وجہ سے سرحدیں بھی خاموش ہیں۔

لیکن انڈیا کی سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر جدید طرز کے ڈرونز کے ذریعے انڈیا میں اسلحہ اور منشیات سمگل کیے جاتے ہیں۔

بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل پنکج سنگھ نے اتوار کو نئی دلی میں ایک تقریب کے دوران انکشاف کیا کہ جموں کشمیر اور پنجاب میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر ڈرون دراندازی کے واقعات میں گذشتہ دو برس کے دوران تین گنا اضافہ ہوا۔

پنکج سنگھ نے بتایا کہ سنہ 2020 میں 79 واقعات پیش آئے جبکہ 2021 میں ڈرون دراندازی کے 109 واقعات رونما ہوئے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس سال کے صرف گیارہ ماہ کے دوران پنجاب اور جموں کی سرحدوں پر ڈرون کے ذریعے اسلحہ اور منشیات سمگل کرنے کے 266 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

انھوں نے بتایا کہ نہایت تیز رفتار اور بہت کم آواز والے اِن ڈرونز سے کوئی ٹھوس معلومات بھی حاصل نہیں کی جا سکتیں تاہم انھوں نےالزام عائد کیا کہ ’پڑوسی ملک سے تخریب کار عناصر ان ڈرونز کو لانچ کر کے انڈیا میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

تاہم پاکستان کے متعلقہ سکیورٹی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈین حکام کے اس بے بنیاد دعوے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

ان کے مطابق یہ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی بھی انڈین حکومت کو اندرونی سکیورٹی اور سیاسی معاملات سے توجہ ہٹانی ہو تو وہ ’سیاسی فائدے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور سکیورٹی میں اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔‘

https://twitter.com/OfficialDGISPR/status/923916272764641280

’ڈرون دراندازی ایک سکیورٹی چیلنج ہے‘

انڈین سیکورٹی اداروں سے وابستہ متعدد افسروں کا ماننا ہے کہ سرحدی علاقوں میں ڈرون دراندازی ایک نیا اور بہت بڑا سکیورٹی چیلنج ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج نے بھی ماضی میں سرحد پر ’جاسوسی کرنے والے انڈین ڈرونز‘مار گرانے کا دعویٰ کیا۔

ایک انڈین افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کشمیر سے پہلے 1980 میں پنجاب میں ہی مسلح شورش برپا کی گئی تھی۔ ڈرونز کے ذریعے ہتھیار اور منشیات یہاں سمگل کرنے کا مطلب ہے کہ ’تھیٹر آف وار‘ وادی سے شفٹ کر کے شمالی انڈیا میں گڑ بڑ پھیلانے کی سازش ہو رہی ہے۔‘

واضح رہے کہ اس سال ستمبر کے آخر میں جموں میں دو بم دھماکے ہوئے تھے جبکہ گذشتہ برس جموں کے ایئر فورس سٹیشن میں بھی بم دھماکہ ہوا تھا۔ فورسز کا دعویٰ ہے کہ دونوں وارداتوں میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد ڈرونز کے ذریعے ہی سمگل کر کے شدت پسندوں تک پہنچایا گیا تھا۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ منشیات کو سمگل اور انڈین مارکیٹ میں فروخت کر کے بھاری رقوم حاصل کی جاتی ہیں جو دہشتگردوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی سال جولائی میں انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے جموں کشمیر کے سرینگر، کٹھوعہ، سانبہ اور ڈوڈہ اضلاع میں متعدد مقامات پر چھاپے مارے تھے۔ ان چھاپوں کا مقصد یہاں سرگرم ’ڈرون نیٹ ورک‘ کی تفتیش کرنا تھا۔

’مقناطیسی یا سٹِکی بم‘

فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر ڈرون کے ذریعے ایک خاص طرز کا نیا بم سمگل کیا جاتا ہے۔ یہ بم مقناطیسی پاؤچ میں ہوتا ہے جسے کسی بھی گاڑی یا لوہے کی سطح پر چپکایا جاسکتا ہے۔

اسے سکیورٹی حلقوں میں ’سٹِکی بام‘ کہتے ہیں۔ فوج اور پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کے لیے کام کرنے والے ’بالائے زمین ورکر‘ یہ سٹِکی بم کہیں پر بھی چپکا کر فرار ہوجاتے ہیں۔ جموں میں ہوئے دو بم دھماکوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مقناطیسی بم ہی تھے۔

فوج، بی ایس ایف اور پولیس کے اعلیٰ افسروں کا دعویٰ ہے کہ جو ڈرون سرحدوں پر دراندازی کرتے ہیں وہ چینی ساخت کے جدید ترین ڈرون ہیں جن میں آواز کم ہوتی ہے، رفتار بہت تیز ہوتی ہے اور یہ بہت اونچی اُڑان بھر سکتے ہیں۔

اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوجی اور نیم فوجی اداروں کے اعلیٰ حکام انسدادی حکمت عملی ترتیب دینے پر زور دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی امریکی ڈرونز کی خریداری کی وجہ چین سے سرحدی کشیدگی ہے؟

ترکی کے ڈرونز دنیا بھر کے فوجی تنازعات میں ’گیم چینجر‘ کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟

کیا شورش کا مرکز کشمیر سے شفٹ ہوگا؟

کشمیر میں بی ایس ایف کے انسپکٹر جنرل راجا بابو سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈرون دراندازی وادی میں بھی کہیں کہیں ہوئی ہے لیکن اس کا زیادہ تر اثر پنجاب اور جموں کے سرحدی علاقوں میں ہے۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون دراندازی واقعی ایک بڑا خطرہ ہے اور ہم اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وادی کشمیر میں اونچی پہاڑیوں اور گھنے جنگلوں کی وجہ سے یہ دراندازی زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ چونکہ جموں کے سرحدی خطوں اورپنچاب میں میدانی سرحدیں ہیں، وہاں ڈرونز کے ذریعے اسلحہ اور منشیات گرائے جاتے ہیں۔‘

اس سال بی ایس ایف نے پنجاب کے امرتسر ضلع میں سرحدی پٹیوں پر 10 ڈرون مار گرائے ہیں جن میں سے تین صرف اکتوبر کے مہینے میں گرائے گئے۔ بی ایس ایف کے مطابق پنجاب کے سرحدی گاؤں ترن تارن اور نیشتا میں کئی بار ڈرونز کے ذریعے منشیات کے پیکٹ گرائے گئے۔

آئی جی بی ایس ایف راجا بابو کا کہنا ہے کہ فوج اور بی ایس ایف مشترکہ طور پر ڈرون مخالف حکمت عملی پر کام کررہے ہیں۔

’ہمارے پاس پہلے اینٹی ڈرون میکانزم ہے اور ہم اس سے مزید اپ گریڈ کررہے ہیں۔‘

تاہم مبصرین ڈرون دراندازی کے خدشات سے متعلق قیاس کرتے ہیں کہ مسلح شورش کا مرکز کشمیر سے جموں کے سرحدی علاقوں اور پنجاب کی طرف شفٹ ہوسکتا ہے۔

2019 میں کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے ساتھ ہی انڈین فوج نے مسلح شورش کو ختم کرنے کے لیے ہمہ جہتی فوجی مہم چلائی اور تین سال کے عرصے میں کم از کم 500 شدت پسند متعدد جھڑپوں کے دوران مارے گئے۔

علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے اور جو قید نہیں، وہ خاموش بیٹھے ہیں۔ ہند مخالف مظاہرے اب نہیں ہوتے اور نہ ہی کبھی ہڑتال ہوتی ہے۔

اس صورتحال کو لیفٹینٹ گورنر منوج سنہا امن کی واپسی قرار دے رہے ہیں۔ اسی دوران انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدوں پر سیز فائر کا نیا معاہدہ بھی دو سال قبل ہوا اور سرحدوں پر بھی امن کی فضا ہے۔

اس پس منظر میں پنجاب اور جموں کی سرحدوں پر ڈرون دراندازی کے بڑھتے واقعات کو جہاں سکیورٹی ادارے ایک چیلنج سمجھتے ہیں، وہیں مبصرین کہتے ہیں کہ ’ کشمیر تنازع وادی سے نکل کر دیگر علاقوں میں شفٹ ہوسکتا ہے۔‘

جموں میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار تَرُون اُپادھیائے کہتے ہیں کہ ’یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ ڈرون دراندازی میں پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی براہ راست ملوث ہیں یا کچھ دہشتگرد جو اُن کے کنٹرول سے باہر ہیں۔

’لیکن جس انداز سے جموں کو دوبارہ ہاٹ سپاٹ بنانے اور پنجاب میں تشدد بھڑکانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، مُجھے ایک نئی شُورش کے آثار نظر آ رہے ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب اور کشمیر میں مسلح تشدد کے لیے ہتھیاروں کی کمی ہوئی ہے کیونکہ سرحدوں پر نگرانی بڑھی ہے، یہی وجہ ہے پولیس والوں سے ہتھیار چھیننے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

’ڈرونز کے ذریعے ہتھیار جموں اور پنجاب میں گرانے کا مطلب ہے کہ پنجاب اور کشمیر میں تشدد بھڑکانے کے لیے ہتھیاروں کا کاریڈور بنایا جا رہا ہے۔ یہ واقعی ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments